گالی اور گولی کی سیاست
میرا یقین میری پہچان میرا ایمان مملکت خداداد پاکستان جس کے بارے کل کسی نے مجھ سے کہا کہ پچھلے ستر سالوں سے جب سے اس ملک کا قیام عمل میں آیا ہے ایک تو ہم ہر وقت یہ سنتے آرہے ہیں کہ اب کہ پاکستان کو بیشمار خطرات نے گھیر رکھا ہے اور یہ اپنے وقت کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے جبکہ دوسری چیز جس کے بارے ہر وقت خطرے میں ہونے کا شور مچایا جاتا ہے وہ ہے ہمارا دین اسلام یہ تو ہے تصویر کا ایک رْخ لیکن اس کے برعکس اگر تصویر کے دوسرے رْخ کی طرف ایک نگاہ ڈالیں تو پاکستانی ریاست خاص کر اس کی عوام کے بارے پچھلی دو دہائیوں سے دنیا میں جو ایک مخصوص تاثر اْبھرا ہے اور جس کا دنیا بڑی شدت سے پرچار بھی کر رہی ہے کہ اپنے اسلامی تشخص کے حوالے سے پاکستانی قوم کی سوچ، قول اور فعل پر مذہبی رْجعت پسندی کا اس قدر غلبہ آ چکا ہے اور ان کا طرزعمل بظاہر نہ صرف اس بات کی نشاندہی بلکہ اس پر مہر بھی ثبت کر رہا ہے کہ انکا یہ رویہ نہ صرف انتہا پسندی کی حدود کو عبور کرتے ہوئے پُرتشدد کارروائیوں کے زمرے میں آ رہا ہے بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی سرزمین مذہبی جنونیت میں سرشار جنگجوئوں کی پرورش کیلئے بطور نرسریوں کا کام بھی کر رہی ہے اور اس سلسلے میں اب ہر عیرہ غیرہ نتھو خیرہ پاکستان کو دھمکیاں دیتا نظر آتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے خلاف اس کمپیئن اس پروپیگنڈے میں حقیقت کا کوئی عنصر پایا بھی جاتا ہے یا حقیقت میں اس کی اصلیت ایک پراکسی وار سے آگے کچھ نہیں۔ اس امر اس سچائی کو جاننے کیلئے ہمیں بطور ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ہوگی۔ پاکستان کے اس ستر سالہ دور کی تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ ستر سالہ دور ہمیں دو ادوار میں بٹا نظر آتا ہے۔ گو کہ تاریخ دان 14 اگست 1947ء سے لیکر ضیاء دور کی شروعات سے پہلے عرصے کو ایک دور اور ضیاء دور سے لے کر ابتک کے عرصے کو دوسرے دور سے تعبیر کرتے ہیں لیکن بطور ایک ادنی حقیر اور معمولی طالب علم میری دانست میں گو کہ 1970ء کے الیکشن میں مذہبی سوچ رکھنے والی بیشتر جماعتیں اس الیکشن میں بْری طرح ناکام ہو گئی تھیں لیکن صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود کی کامیابی پھر بھٹو دور حکومت میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا معاملہ اور بعد میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک نظام مصطفی یہ سارے عوامل اس بات کا کافی عْذر مہیا کرتے ہیں کہ بھٹو دور کو ان دو ادوار کے درمیان ہم ایک ٹرانزییشن پریڈ کے طور پر لے سکتے ہیں۔ تاریخی شواہد اور زمینی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ 1947ء سے لیکر ایوب دور تک گو کہ ملک میں نہ تو سرکاری طور پر شراب پر پابندی تھی جیسا کہ بھٹو دور میں شراب پر پابندی لگائی گئی۔ نہ ہی اس پہلے دور میں سرکاری طور پر یہ فرمان جاری ہوا تھا کہ سرکاری دفتری اوقات میں تمام مسلمان ملازم باقاعدگی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے پابند ہونگے جیسا کہ ضیاء دور میں یہ فرمان جاری ہوا۔ نہ ہی چادر اور چار دیواری کی آڑ میں لوگوں کے منہ سونگھنے اور نکاح نامے دیکھنے کے شرعی قانون نافذ تھے جسکی بنیاد ضیاء آمریت میں رکھی گئی۔ قانون کی ان تمام محرومیوں کے باوجود یہ بات اج بھی پوری سچائی کے ساتھ موجود ہے کہ اس دور میں زبانی جمع خرچ کے برعکس پاکستانی قوم کی اکثریت کے فعل اور کردار سے اجکی نسبت انکے اسلامی شعائر کی زیادہ جھلک نظر اتی تھی۔ اس دور میں اجکے دور سے زیادہ مسجدیں آباد تھی۔ شرم و حیاء اور قانون کی پاسداری کا رجحان اج کی نسبت کہیں زیادہ جوان تھا۔ گناہ لوگ چھپ کر کرتے تھے اور گناہ کے متعلق دلوں میں ایک خوف اور ذہنوں میں ایک شعور رکھتے تھے۔ عمداً قانون شکنی کے اِکا دْکا واقعات ہوتے تھے۔ بحیثیت مجموعی اگر یہ کہا جائے کہ تہذیبی روایات کی پاسداری کا دور دورہ تھا تو بے جا نہ ہو گا لیکن پھر کیا ہوا۔ بھٹو صاحب کا وہ عوامی دور جس کو یہ ناقص العقل ٹرانزیشن پریڈ سے تعبیر کر رہا ہے اور جس پر بھٹو صاحب کے کردار کے حوالے سے انکے حامی اور ناقدین اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں بغیر کسی بْغض اور عناد راقم کی نظر میں وہ دور ہے جس میں ہماری پرانی روایتی تہذیب کی تباہی کا آغاز ہوا اور ہماری سوچوں کا محور ہمارا کردار ہماری ترجیحات سے نکل گیا اور ہم کردار سے گفتار کے دور میں داخل ہو گئے۔ تحریک نظام مصطفی کے نو ستارے ہمیں نظام مصطفی کے نعرے سے متعارف تو کروا گئے لیکن اسکی اصل روح میں اسکے عملی نفاذ کیلیئے کوئی حکمت عملی واضع کرنے سے قاصر رہے۔ نتیجہ کیا نکلا قیادت علماء اور سکالرز کی بجائے ایم ایف پی پی (مڈل فیل پرائمری پاس) لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ اس دوران ایک آمَر کے شخصی اقدار کے تحفظ اور طوالت کے چکر میں کچھ اس طرح کے کھیل کھیلے گئے کہ اس دوران کچھ اس شدت کے ساتھ گرد اْڑی کہ منزل پر پہنچنا تو درکنار مذہب کا جو اصل راستہ تھا ہم اس سے بھی بھٹک گئے۔ افغان جہاد کے فلسفے نے نہ صرف ہمارے ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں بلکہ ہم اس قدر گمراہ ہو گئے کہ نہ ہم تیتر رہے نہ بٹیر۔ ایوب دور تک عوام میں کردار کے غازی اکثریت میں نظر آتے تھے جبکہ گفتار کے غازی بہت کم تھے لیکن اسے افغان جہاد کا ستم کہیئے کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف اور کچھ کے ہاتھوں میں لاؤڈ سپیکر ایسا آیا کہ پھر عوام میں کردار کے غازیوں کی بجائے گفتار کے غازی سروں پر اپنے اپنے ٹریڈ مارک سجائے لشکروں کی صورت میں اپنی موجودگی کا موثر اظہار اور عملی مظاہرہ کرتے طاقت کے زور پر عوام کی اکثریت پر اپنا رْعب اور دب دبا منوانے لگ پڑے۔ حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو یہ وہ دور ہے جب پاکستان کی سیاست میں بندوق کی گولی متعارف ہوئی۔ گو کہ کچھ تجزیہ نگار نواب احمد خان قصوری کے قتل کو سیاست میں گولی کے عمل کا نقطہ آغاز کہتے ہیں لیکن تاریخ بھٹو کی پھانسی کو سیاست میں گولی کے رواج کا نام دیتی ہے۔ ضیاء آمریت کو چونکہ بھٹو ازم جو کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد ایک نظریہ بن گیا تھا سے بہت بڑا خطرہ محسوس ہو رہا تھا اس نے اس خطرے سے نمپٹنے کیلئے گفتار کے ان غازیوں کی ہر سطح پر اور ہر طرح مدد کی اور پھر یوں ان گفتار کے غازیوں کو وہ مقام حاصل ہو گیا کہ یہ تصور انکی گْدی میں جڑ پکڑ گیا کہ انکی موجودگی کے بغیر پاکستان کی تعریف اور حفاظت نامکمل ہے حالانکہ قائداعظم کی 11 اگست1947ء کی تقریر مذہب اور ریاست کے بارے کچھ اور ہی بیان کرتی ہے جس پر ہم ایوب دور تک قائم رہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ہماری سیاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک طبقہ پرو بھٹو اور دوسرا بھٹو مخالف۔ اسے وقت کا جبر کہیں یا سیاستدانوں کے اس طبقے کی کمزوری جنکی سیاست بھٹو مخالفت پر مبنی تھی کہ بھٹو مخالفت میں انھے ہمیشہ ان گفتار کے غازیوں کی ہمیشہ ضرورت رہی تاآنکہ کہ 2008ء سے لیکر 2013ء کے درمیانی عرصہ میں بھٹو نظریہ اسکے اپنے ہی حامی کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں زخموں سے چور چور اپنی آخری سانسیں لینے پر مجبور ہو گیا۔ قانون قدرت ہے کہ خلاء کبھی برقرار نہیں رہتا اس کو پْر کرنے کیلیئے کوئی نہ کوئی جگہ لیتا ہے۔ راقم نہیں کہہ رہا زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس خلا کو پْر کرنے کیلئے اس دوران ایک تیسری پارٹی آگے آئی یا لائی گئی۔ راقم کو پورا یقین ہے اس بارے یہ سچ بھی تاریخ ضرور اْگلے گی۔ یہ انسانی جبلت ہے کہ جب انسان کو یہ گمان ہو جائے کہ وہ بہت طاقتور ہو گیا ہے یا کوئی طاقتور اسکے پیچھے کھڑا ہے تو پھر اسے اپنی زبان پر قابو نہیں رہتا بس یہی کچھ اس تیسری پارٹی کے ہاتھوں ہوا حالانکہ پاکستان کی سیاست میں گالی کا رواج اس وقت سروس ہوا جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس وقت کے امر ایوب خان کو للکارا اور یہ بات کسی طور اس امر سے برداشت نہ ہوئی اور اسکے حامیوں کی طرف سے محترمہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال ہوئی اور پھر اسی ڈگر کی پیروی کرتے 2014ء کی دھرنا سیاست میں اْوے اْوے اور تْوں تْوں کے تکلم نے ایسا زور پکڑا کہ 2017ء کے ایک دھرنے میں بات گالیوں کی اس انتہا اور مقام تک پہنچی کہ اعلی عدلیہ کو باقاعدہ ان باتوں کا نوٹس لینا پڑا اور اعلی عدلیہ کی طرف سے کچھ ایسے سوالات اور ابزرویشن سامنے آئیں کہ فکری سوچ رکھنے والے سر پکڑ کے بیٹھ گئے کہ خدایا ابھی ہم اپنے کندھوں کو طالبان کے بوجھ سے تو آزاد کر نہیں سکے یہ ناتواں کندھے اب کسی اور کا بوجھ کیسے اُٹھائیں گے
دوستو اس ساری کتھا کہانی کا مقصد یہ ہے کہ ان حالیہ دنوں میں گالی گلوچ بریگیڈ کی لفظی گولہ باری کے بعد شروع ہونے والی جوتی پریڈ جو اب بارودی گولہ باری میں بدل چکی ہے جسکی تازہ مثال موجودہ وزیر داخلہ کا گولی سے زخمی ہونا اور اگلے دن کراچی میں دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان پانی پت کا میدان سجا ہے اگر آنے والے دنوں میں ہم نے اس روش پر قابو نہ پایا تو یہ اس دنیا جو پہلے ہی ہماری دشمن بنی بیٹھی ہے انکے اس تاثر اور پروپیگنڈے کو کیا مزید تقویت نہیں دے گی کہ ہماری دشتنام طرازیوں سے ہمارے دشمن ہی نہیں ہمارے اپنے بھی محفوظ نہیں۔ لمحہ فکریہ