میاں نوازشریف نے کلہاڑی پر پیر مارا ہے !
پیپلز پارٹی کے آصف علی ذرداری پر الزام ہے کہ انہوںنے پی پی پی کا وہ کام کردیا جو جنرل ضیاء الحق ذولفقار علی بھٹو کو شہید کرکے بھی نہ کرسکے ، آصف علی ذرداری اور میاںنواز شریف کی ایک وقت اتنی دوستی تھی کہ میاں صاحب کو وہ ا پنا بھائی کہا کرتے تھے ۔ اسلئے بارہ مئی کو نہ جانے کہاں سے وہ ڈان کے رپورٹر کو پکڑ لائے اور اسے انٹرویو دے دیا ، رپورٹر وہی تھا جو نیوز لیک فیم تھا ، اور میاں نواز شریف نے نیوز لیک جس پر ابہام تھا ، اور تمام تر کوششوںکے بعد اسکا راز نہیں کھل رہا تھا ، یہ تو دانشوروں اور میڈیا کو معلوم ہوچکا تھا مسئلہ یہ تھا کہ صحیح یا غلط یہ اطلاعات انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر تک کس نے پہنچائیں۔ میاں نواز شریف نے مہربانی کی جنہیں یہ شوق ہے کہ پیر پر کلہاڑی نہیں بلکہ زخمی ہونا ہی ہے تو کلہاڑی پر ہی پیر مارلو۔ مگر بیان اتنا خطرناک ہے کہ میاںصاحب نے اپنی جماعت کو بھی جبکہ انتخابات آگئے ہیں مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ میاں صاحب نے اس متنازعہ رپورٹر سے دوستی میں نیوز لیک کی تفصیلات نہیں پوچھیں بلکہ اسے vip پروٹوکول پر ملتان لاکر ، پاکستا ن کی تاریخ کا ایک بہت ہی نقصان دہ انٹرویو دے دیا ۔بات جبکہ کوئی نئی نہیں کہی باتیں وہ وہی کہیں جو اس سے قبل رحمان ملک، شاہ محمود قریشی بہ حیثیت وزیر خارجہ ، پرویز مشرف ، جنرل حمید گل وغیرہ بھی کہہ چکے ہیں یہاںتک کہ ، سابقہ چیف انٹیلی جنس (ر ) اسد درانی جب وہ سعودی عر ب میں سفیر تھے جدہ میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہماری جتنی جنگیں بھارت سے ہوئی ہیں وہ ہم نے خود شروع کیں، جبکہ پاکستان کا موقف یہ رہا ہے بھارت جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ان لوگوں سے کوئی نہ پوچھتا نہ ہی پوچھے گا ۔ مگر میاںنواز شریف جو تین مرتبہ مسند وزارت عظمی پر بیٹھ چکے ہیں ، جنکے لئے یہ بات مشہور ہے کہ وہ مودی کے دوست ہیں ، مودی اپنے قافلے سمیت بغیر ویزہ کے پاکستان انہیں سالگرہ کی مبارک دینے آ ٹپکتا ہے۔ ہندوستا ن سے تجارت کا واویلا بھی ہوتا رہتا ہے ، انکی زبان سے یہ باتیں نکلنا انٹرویو کے دوران اور یہ باتیں off the record بھی نہیں تھیں، چونکہ میاں نواز شریف وزیر اعظم ، فوجی قیادت ، و فوجی ادارے ، اپنے بھائی میاں شہباز شریف کے اعتراض کے باوجود بھی اپنے بیان پر قائم ہیں تو اسکے پیچھے ’’ کون بشر ہے ‘‘ یہ معمولی بات نہیں اوپر دئے ہوئے نام یا مزید اور لوگ بھی کوئی بھی بیانیہ اسطرح کا رکھتے ہوں مگر یہ بیانیہ پاکستان کا نہیں ، تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے کا یہ بیانیہ حکومت پاکستان کا بیانیہ ہی مانا جائے گا ۔ آصف علی زرداری ہر گز اتنے بھولے نہیں جتنے وہ نظر آتے ہیں یا اپنے اینٹ سے اینٹ بجانے والے بیان کو وہ یہ کہتے ہیں کہ میاںصاحب نے مجھے بھڑکایا تھا ، ذرداری صاحب کتنے سادہ انسان ہو میاں نواز شریف بقول انکے شاطر آدمی ہیں یہ صرف پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ آصف علی زرداری کتنے سادہ ہیں۔میاں صاحب بھی ا چکزئی جیسے سیاست دانوںکے نرغے میں رہتے ہوئے اپنے مخلص دوستوں سے دور رہتے ہیں ۔ میاں صاحب کے حالیہ مشیروںکو اب اس بیان کے گرداب سے نکلنا مشکل ہے ۔ یہ تو بچوں والی اورنہ سمجھنے والی بات ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر انٹرویو دیا ۔
( ایک تو جب سے نااہلی ہوئی ہے میاں صاحب کے پاس سوال بہت ہوگئے ہیں کبھی مجھے کیوں نکالا کبھی میں نے کیا کہا ہے ؟؟اسکا مطلب ہے انکے بہی خواہ خوامخواہ کی توجہیات دے رہے ہیں اور میاں صاحب اپنے بیان پر قائم ہیں جو نہ صرف ایک غلط اور ناسمجھی کا بیان ہے ، لوگوںکو کہنا ہے کہ میاںصاحب بین الاقوامی اسٹبلیشمنٹ سے مخاطت ہیں ، یہ ہی بین الاقوامی اسٹبیلشمنٹ بھارت کی ایما ء اور دبائو پر پاکستان کے خلاف ہر محاذ پر کیس بنا رہی ہے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری وزارت خارجہ اہل نہیں ، ایسے میں میاں صاحب کا حالیہ بیان لے لیں یا الطاف حسین کی تقریریں دونوںہی پاکستان کیلئے نقصان دہ ہیں ، اسوقت انتخابات سر پر ہیں ، اسوقت میاںنواز شریف کو ئی آیت بھی پڑھیںگے تو مخالفین پوچھیں گے کہ آج کا دن اس کے پڑھنے کا نہیں بلکہ دوسری آیت پڑھنا چاہیے تھی ۔ مگرکیا کیا جائے عوام کا ؟؟؟ عوام کی یاداشت کمزور ہوتی ہے ، عوام گہرائی کو نہیں سمجھتے شائد شہروںکی حد تک کچھ تعلیم یافتہ لوگ بین الاقوامی معاملات اور ہمارے سیاست دان واقف ہوں مگر شہروں سے ہٹ کر رہنے والے نابلد ہیں وہ ووٹ دیتے ہوئے کسی کی محب وطنی نہیں دیکھتے ، تین دن سے چینلز گلاپھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں عوام میں غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے ، اس سے بہتر ہے چینلز معاملے کی سنگینی بتائیں ( اگر انہیں پتہ ہو تو ) ورنہ عوام نے پاکستان کی تاریخ میں جتنا غصہ بتایا ہے اسکا ثبوت کئی ملک دشمن کرپٹ سیاست دانوں کا ہر مرتبہ عوام کے ووٹ لیکر اقتدار میں آنا ہے ۔ سب ہی عوام کے نام پر کھیلتے ہیں اسی لئے گزشتہ ستر سالوں سے عوام کی حالت تبدیل نہیںہوئی، معیشت درست نہیں ہوئی ، تعلیمی نظام بہتر نہ ہوا ۔ اگر وزیر اعظم کہتے ہیں ، اور شہباز شریف کہتے ہیں جو میاں صاحب نے کہا ہے وہ اسطرح شائع نہ ہوا تو عدالتیں موجود ہیں اخبار بھی پاکستان کا ہے ، مگر میاں نواز شریف تو کہیں کہ میں نے نہیں کہا !