• news
  • image

میری امی ۔۔ میری سپر ہیرو

کائنات کی سب مائوں کی کہانی ایک سی ہو تی ہے۔ محبت، مہربانی اور قربانی کی کہانی۔ جس کہانی میں یہ سب نہ ہو، وہ عورت تو ہو سکتی ہے، مگر ماں نہیں، دوسری طرف وہ عورت جو کسی طبی مجبوری کی وجہ سے بچہ پیدا کر نے کی اہل نہ ہو مگر یہ سب محبت ، قربانی اور مہربانی کر نے کی اہلیت رکھتی ہو ، وہ بچہ نہ جننے کے باوجود ماںہو تی ہے۔ کیونکہ ماں وہ عورت ہو تی ہے جو حالات کیسے بھی ہوں اپنے بچوں سے پیار کر نا نہیں چھوڑتی، اپنے بچوں کو نہیں چھوڑتی وہ خوشیوں کو بچوں کی خاطر چھوڑ دیتی ہیں، اپنی خوشیوں کی خاطر بچے نہیں چھوڑتی۔ توآج کے مشینی دور میں عورت اور ماں کے فرق کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کئی عورتیں بچوں کو صرف جنم دے کے عمر بھر کے لئے جذباتی بلیک میلنگ کا ہتھیار بنا لیتی ہیں اور جو اصلی مائیں ہیں وہ سب کر نے کے بعد بھی بچوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو تی رہتی ہیں۔ مدرز ڈے ۔۔ میں ان سب بچوں کی زبان بن کر ان ساری مائوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، جو عورت بعد میں اور ماں پہلے ہیں۔ جنہوں نے اپنا حسن، جوانی، ذہانت، خواہش، سب اپنے بچوں میں رکھ دیں او ر خود مٹ گئیں مگر یہ مٹنا ایسا مٹنا ہو تا ہے جو کبھی مٹتا نہیں، آپ کے بچوں میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
میری ماں صرف میری ماں نہیں میری ہیرو بھی ہے اور ہیرو بھی صرف ہیرو نہیں بلکہ سپر ہیرو ۔۔مائوں کی کہانیاں بہت طویل ہو تی ہیں ، پوری الف لیلوی داستان ہو تی ہیں ، وہ اس میں سے اچھے اچھے حصے بچوں کو سنانا چاہتی ہیں، مگر چونکہ بچپن میں بچے مائوں کو ہی چمٹے رہتے ہیں تو وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مائوں کو ان کے بچپن میں لے جاتے ہیں، ان کی متجسس آنکھوں میں ڈھیروں سوال ہو تے ہیں، جنہیں ہم ماں باپ کہہ رہے ہیں وہ کون لوگ ہیں ۔۔ جیسے ایک دن میری بیٹی مجھے کہنے لگی ماما کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ ہمیں اپنے ہی ماں باپ کی زندگیوں کے بہت سے رازوں کا نہیں پتہ۔۔ آج کے بچے کواظہار کا طریقہ آگیا ہے تو اس نے پو چھ لیا ، ہمارے بچپن میں نہ اظہار کی طاقت تھی نہ سلیقہ ۔۔۔اپنے ہی طریقے سے مائوں کے دکھوں اور سکھوں میں گھسنے کی کوشش کر تے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک تصویر دیکھ کر میری امی زارو قطار رویا کر تی تھیں، بس وہی لمحہ ہو تا تھا ، جب ہم انہیں کمزور پاتے تھے ، وہ تصویر اس کی تھی جو انہیں دنیا میں لانے کا باعث تو تھا ، مگر وہاں رکا نہیں، اس تصویر کے آگے وہ پگھلتی جاتیں ۔۔۔اس وقت لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ہماری مضبوط والی امی ہیں، اس وقت لگتا بس ایک چھوٹی سی بچی ہے جسے بس اپنا باپ چاہیئے۔ اب وہ منظر یاد آتا ہے تو سوچتی ہوں کہ اس وقت امی اپنے آپ کو کتنا اکیلا کتنا بے بس محسوس کر تی ہو نگی ۔ہم اپنی نانی کو دیکھتے تھے، امی ہی کی طرح کی حسین عورت، جس نے شائد امی کو سترہ سال کی عمر میں جنم دے دیا تھا، ان کی، شوہر کے انتقال کے بعد ، دوسری شادی کر ادی گئی تھی ، اور جب ہم نے انہیں دیکھا تو دوسرے بچوں میں مصروف دیکھا ، ذرا بڑے ہو ئے تو پتہ چلا وہ ہماری نانی ہیں مگر امی کی امی ان کی نانی تھی، جنہوں نے اپنی بیوہ بیٹی کو بیاہ کر میری امی کو سینے سے لگا لیا تھا ۔۔۔۔اس وقت کے بزرگوں کی عقلمندی اور قربانی یاد تو آتی ہے مگر آج کے دور میں سمجھ نہیں آتی ۔ شائد ، امی جب پالنے میں ہو نگی اور انکے ابو چل بسے ہونگے، تب سے ہی، فطرت نے انکے اندر ایک خاص صفت رکھ دی تھی ، اور وہ صفت تھی جو انہیں عام عورت سے ماں اور ماں سے اٹھا کر سپر ہیرو بنا تی ہے۔۔۔ہمت نہ ہا رنے کی، ابھرنے کی اور حالات کے مطابق ڈھل جانے کی جب 16 سال کی عمر میں ان کی شادی اپنے سے بیس سال بڑے انسان سے کروا دی گئی جو کسی لحاظ سے بھی ان کا میچ نہ تھے تو نبھانے کی ٹھان لی۔ ایسی شادیوں میں بہت خطرناک موڑ آتے ہیں، انتہائی خوبصورت اور کم عمر ہو نے کے باوجود ، فرار کی بجائے ،حالات کا مقابلہ کر تی رہیں ۔۔میری یاداشت میں وہ عورت ہے جو بہت خو بصورت تھی ، چھ بچے پیدا کر کے بھی دبلی پتلی، اتنے دکھ غم سہ کے بھی ہنسنے مسکرانے والی، میری یاداشت میں وہ عورت ہے جو بچپن میں ہمارے ساتھ رسہ کودا کر تی تھیں ۔۔ چھوٹی سی تو تھیں، بڑی بہن بتاتی ہیںکہ سکول میں انہی بچیوں کو پڑھا کر ، پھر انہی کے ساتھ کھیلا کر تی تھیں اور خود امی بتاتی ہیں ، بڑی بہن جب پیدا ہو ئی اسے دودھ پلا کر پھر باہر آکر سکول کی ٹیچرز ( میرے ابو کا فیصل آباد میں بہت بڑا سکول ہوا کرتا تھا جہاں امی پڑھایا بھی کرتی تھیں اورجو بعد میں بھٹو نے نیشنلائز کر دیا تھا ) کے ساتھ کھیلنے لگ جاتی تھیں۔ بچپن کی یادوں میں سے ایک یاد ہے جو میری بڑی بہنوں سے ہی مجھ تک ایسے پہنچی ہے جیسے میں خود وہاں موجود تھی، امی کا کالا لمبا کوٹ ، ہیل والے کوٹ شوز ،دمکتی ہوئی سرخ و سفید پٹھانوں جیسی رنگت ، جب سکول میں مینا بازار لگتا تھا ، تو بچوں کی مائیں ، صرف امی کو دیکھنے ، ان سے ملنے ، آیا کر تی تھیںکہ آج مس بانو بہت پیاری لگ رہی ہو نگی ۔بچپن میں یتیم اور ماں کی ودسری شادی کے بعد بے سہارا رہ جانے والی بچی جسے اس کی نانی نے پالا ہو اور نانی وزیر آباد میں رہتی ہو، ایسی بچی کو ویسٹرن سٹائل کے پروفیشنل فیشن اور سٹائل کی کیسی سمجھ تھی ، اس بچی کے اندر سرسید والا جذبہ کہاں سے آگیا ؟ جب ان کی ہم عمر لڑکیاں بنائو سنگھار ، شاپنگ ، امور ِ خانہ داری میں الجھی ہو تی تھیں وہ اوپر نیچے پیدا ہو نے والی چار بیٹیوں کو سجنے سنورنے یا مردوں سے ناز اٹھوانے کی بجائے طاقتور عورتیں بنانے میں مصروف تھیں ۔ مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کبھی ضرورت سے زیادہ کپڑے، کھلونے یا جوتے خریدے ہوں ۔ مجھے نہیں یاد کہ ہماری امی نے ہمیں صاف ستھرا، ہلکی سی کریم اور ہونٹوں پر ویسلین لگانے کے علاوہ کسی اور سنگھار کی ترغیب دی ہو ۔یا انہیں دیکھ کر ہمارے اندر خود بخود کوئی ایسی خواہش جاگی ہو ۔۔ انہوں نے کسی ذہین انجئینر کی طرح ہماری بنیادوں کو ٹھوس بنانے کی طرف تو جہ رکھی ۔۔ ان کی زندگی کا نصب العین دو باتیں تھیں ۔اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم۔ حالات جیسے بھی ہوں ،تنگی ہو اور ردی بیچنی پڑے یا سکول میں بچوں کی تعداد بہت بڑھ جائے اور خوشخالی آجائے، دونوں صورتوں میں ، ہمیں پھل، بکرے کا گوشت،گندم کی روٹی، دیسی گھی اور دودھ دہی کھانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا اور ودسری چیز تعلیم ۔۔۔ پڑھنا ہے یا پڑھانا ہے ۔ میں جب تک امی کے گھر رہی ، میں نے یا پڑھا ، یا پڑھایا ، اس کے علاوہ امی نے مجھ سے کوئی کام نہیں لیا ۔۔ نہ کبھی روایتی مائوں کی طرح یہ کہا کہ کھانا پکانا سیکھو نہ کبھی یہ کہا کہ صفائی کرو ۔ صرف ایک ہی بات پر ڈانٹ پڑی کہ وقت ضائع نہ کر و ۔۔۔کھانا ٹھیک سے کھائو ، دودھ کیوں نہیں پیا ۔۔ اس کے علاوہ میری یاداشت میں نہیں کہ امی نے اپنے آرام کی خاطر کبھی ہمیں تنگ کیا ہو، یہاں تک کے جب کبھی کام والی نہیں آتی تھی توسکول اور ٹیوشن پڑھا کر خود جھاڑو پکڑ لیتی تھیں، برتن دھوتیں اور یہاں تک کے واشنگ مشین کے نہ ہو تے ہو ئے کپڑے بھی خود دھو لیتی تھیں ۔۔۔۔ان کی مامتا اور محنت کو یاد کر وں تو آج کی مائیں ، کاغذی سی لگتی ہیں جب بڑی بہن میڈیکل کالج میں پہنچی تو خاندان والوں نے کہا، لڑکیوں کو اتنا نہیں پڑھاتے یا وہ لوگ پڑھاتے ہیں جن کے پاس وسائل ہوں، امی کہتیں، وسائل کے ساتھ تو سب پڑھا لیتے ہیں، میں ان کے لئے وسائل پیدا کر کے انہیں پڑھائوں گی، میری امی کی ایک خالہ ہو ا کر تی تھیں وہ امی کو کہا کرتی تھیں ، یہ پڑھ بھی گئیں تو تمھیں کیا فائدہ ، ان کی کمائیاں ، ان کے شوہر اور ان کے خاندان کھائیں گے، امی نے کہا میری بیٹیاں مردوں کی طرح کمائیں گی اور دوسروں کو بھی کھلائیں گی اس سے زیادہ میرے لئے کیا خوشی کی بات ہو گی ۔۔ یہ مردوں کی محتاج نہیں ہو نگی ۔۔۔
اور تم ؟ ۔۔وہ تشویش سے پوچھتی تھیں بیٹوں کو پڑھائو ، وہ تمھیں عیش کرائیں گے، یہ پیسہ بیٹوں پر لگانا ۔ امی جواب دیتیں : مجھے اپنے لئے کیا چاہیئے نہ مجھے کپڑوں کا شوق ہے نہ باہر کھانے کا نہ کسی اور عیاشی کا میرے سارا شوق تو انہی بچوں کی ذات کی تکمیل ہے اور بیٹا یا بیٹی کیا ہو تا ہے ۔ (جاری)

روبینہ فیصل ....دستک

روبینہ فیصل ....دستک

epaper

ای پیپر-دی نیشن