گوجرانوالہ : پہلوانوں کے 25 اکھاڑے بچے‘ بوڑھے بھی زورآزمائی میں مصروف
گوجرنوالہ (بی بی سی رپورٹ )گوجرنوالہ کا پہلوانی کے ساتھ تعلق کچھ عجیب سا ہے۔ یہ تعلق محض ایک کھیل یا روایت تک محدود نہیں، بلکہ کچھ تاریخی اور اس کی نوعیت کچھ کچھ روحانی بھی ہے۔ حال ہی میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں پاکستان کے لیے تمغے جیتنے والے بیشتر پہلوانوں کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔فصیل شہر میں داخل ہوں توں یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہر نہیں ایک وسیع اکھاڑا ہے۔ راہ چلتے لوگ، باغیچیوں میں سستاتے بزرگ، دیواروں پر سیاسی بینرز، چائے خانوں کی رونقیں اور کھانے پینے کی دکانیں، چہار جانب آپ کو پہلوانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ گوجرانوالہ کے باسیوں کو فن پہلوانی کی کچھ عادت سی ہے تو بےجا نہ ہوگا۔گوجرانوالہ میں پہوانوں کے لگ بھگ 25 چھوٹے بڑے اکھاڑے ہیں۔ چار سال کی عمر کے بچے سے لے کر باریش بزرگ زور آزمائی کرتے دکھائی دیں گے۔گوجرانوالہ کے باسیوں کا اس بات پر ناز ہے کہ بڑے بڑے سورماو¿ں کو چت کرنے والا مشہور رستم ہند گاما پہلوان یہاں کے پہلوان رحیم بخش سلطانی والا کو زیر کرنے میں ناکام رہا۔ گوجرانوالہ کے نوجوان کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہو یا پھر غریب متوسط طبقے سے اس کی پہلی ترجیح ڈاکٹر، انجینئر کی بجائے پہلوانی کرنا یا پھر کم از کم جم جا کر خوبصورت اور فربہ جسم بنانا ضرور ہوتی ہے گوجرانوالہ کے بارے مشہور ہے کہ یہاں ہر بندہ اپنے جسم کو اکھاڑے کی مٹی ضرور لگاتا ہے۔
رستم پاک ہند عمر بٹ پہلوان کا بھی ایسا ہی کچھ ماننا ہے کہ 'یہ دنیا کا واحد کھیل ہے جس کا کوئی نقصان نہیں۔
ورزش کرنے سے کیا نقصان ہوسکتا ہے؟لیکن گوجرانوالہ میں آج کے نوجوان پہلوان سمجھتے ہیں کہ پہلوانی کا شوق اور پروفیشل پہلوان بننا تو ٹھیک ہے لیکن پڑھائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گوجرانوالہ میں پہلوانی کی دنیا مختلف دفوں میں بٹی ہوئی ہے یعنی ہر اکھاڑہ کسی نہ کسی دف کے ساتھ منسلک ہوتا ہے جو اپنے اپنے پہلوانوں کو تیار کرتے ہیں اور ان کی دف کا پہلوان فتح یاب ہو۔ایسا بھی ہے کہ ایک ہی گلی محلے یا ایک ہی خاندان کے افراد مختلف دفوں یا پہلوانوں کے ان گروہوں کا حصہ ہیں۔پہلوانی کی ان دفوں کو سمجھے بغیر شہر میں پہلوانی کی روایت کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ بالآخر ایسا بھی کیا ہے اگر شہر کے ایک پہلوان نے اگر سونے کا تمغہ جیتا ہے تو شہر کے کچھ لوگ اس بات پر افسردہ ہیں کہ ان کی دف کے پہلوان نے سونے کا تمغہ کیوں نہیں جیتا۔پہلوانوں میں یہ انتہائی نازک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی عالمی اعزاز جیت جائے تو شہر بھر کو مٹھائی کھلائی جائے گی، شہر میں مبارکبادوں کی لائن لگ جائے گی لیکن مخالف دف سے تعلق رکھنے والوں کو تھوڑا فاصلے پر ہی رکھا جائے گا۔گوجرانوالہ کے نوجوان صرف پیشہ ور پہلوانی کے شوقین نہیں وہ سمجھتے ہیں یہ ایک کھیل ہے، ایک ایسا کام ہے جو انھیں ایک صحت مند زندگی دے سکتا ہے۔ 2018 میں دولت مشترکہ کھیلوں میں دوسری بار سونے کا تمغہ جیتنے والے انعام بٹ پہلوان کے والد لالہ صفدر بٹ بھی اپنے زمانے میں پہلوانی کرتے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دفوں کی یہ روایت شاید عام آدمی کے لیے کوئی معنی نہ رکھے لیکن یہ پورا شہر اور یہاں کے اکھاڑے وفوں میں بٹے ہوئے ہیں۔لالہ صفدر بٹ کہتے ہیں کہ دفوں کے درمیان یہی رقابت نوجوان پہلوانوں کو بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی تحریک پیدا کرتی اور شروع سے ہی مقابلے کی فضا پیدا کرتی ہے۔عمر بٹ پہلوان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر پہلوانی میں دفیں ختم کر دی جائیں تو شاید پہلوانی کی روایت ہی دم توڑ دے۔ ان کا کہنا ہے کہ نسل در نسل جو چیز پہلوانی کو زندہ رکھے ہوئے وہ یہی رقابت اور شہر کے اکھاڑوں کے درمیان مقابلے کا رجحان ہے۔’اگر یہ دفوں کے درمیان یہ مقابلے کا رجحان ختم ہوجائے تو مقابلے کا جواز ہی ختم ہوجائے گا۔گوجرانوالہ کے نوجوان صرف پیشہ ور پہلوانی کے شوقین نہیں وہ سمجھتے ہیں یہ ایک کھیل ہے، ایک ایسا کام ہے جو انھیں ایک صحت مند زندگی دے سکتا ہے۔ان کے سامنے اپنے آباو¿ اجداد اور بزرگوں کی مثالیں ہیں لیکن ایک نوعمر لڑکے کے لیے لنگوٹ پہن کر پہلی بار مجمعے کے سامنے اکھاڑے میں اترنے کا تجربہ کیسا رہتا ہے؟اس کے لیے تیاری بھی پہلے سے کی جاتی ہے۔ لالہ صفدر بٹ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ صبح اپنے بیٹوں کو گلی میں لنگوٹ بندھوا کر دوڑ لگواتے تھے۔شروع شروع میں وہ شرماتے تھے اور کچھ لوگ دیکھ کر حیران بھی ہوتے تھے لیکن اگر وہ گلی میں شرمائے گا تو اکھاڑے میں کیسے لڑے گا؟لالہ صفدر بٹ کہتے ہیں کہ پہلوانی صرف ایک شوق یا کھیل نہیں، یہ ایک طرز زندگی ہے جو آپ کو اپنانا ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب ایک نوعمر پہلوان کو مقابلے کے لیے تیار کیا جاتا ہے تو اس کی حفاظت اور دیکھ بھال ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے مرغی اپنی چوزوں کو پروں تلے دبا کر حفاظت کرتی ہے۔لالہ صفدر بٹ کے مطابق ایسے پہلوانوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، انھیں اکیلے اکھاڑے جانے یا اکھاڑے سے گھر آنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی کیونکہ ذرا سے لاپرواہی پہلوان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور وہ مقابلے میں شرکت سے محروم ہوسکتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ جب انعام بٹ نے سنہ 2010 میں دہلی میں منعقدہ دولت مشترکہ کھیلوں میں سونے کا تمغہ کا جیتا تو میں گھر کے قریب اس دوکان پر گیا جہاں اخبار آتا تھا، یہ دکان یہاں مقامی رہائشی کی نہیں تھی۔انھوں نے بتایا کہ ’میں اس سے اخبار مانگ کر دیکھنے لگا تو اس نے پوچھا کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ میرے بتانے پر کہ میرے بیٹے نے گولڈ میڈل جیتا ہے تو وہ انعام کی تصویر دیکھتے ہوئے حیران ہوا کہ اب میں نے آپ کو پہچانا ہے، آپ وہی ہیں جن کا لڑکا گلی میں لنگوٹ باندھ کر آپ کے آگے آگے بھاگا کرتا تھا۔