فلسفہ نوازشریف
لوگ نواز شریف کو سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ آئیے آج ہم اُن کے چال چلن کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نواز شریف جس مہم جوئی پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اُس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ تو وہی ہے جو اُن کے مخالفین یک زبان ہوکر کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی نااہلی کو انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ اگر مستقبل میں یہ وجہ درست ثابت ہوئی تو سوائے نواز شریف اور اُن کی جماعت کے کسی اور کا کچھ نہیں بگڑے گا اور سب انگارے انہی پر آگریں گے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نواز شریف اب واقعی ہی نظریاتی ہو گئے ہیں جیسے وہ خود کہہ رہے ہیں۔ اگر مستقبل میں یہ وجہ درست ثابت ہوئی تو ہمارے سیاسی نظام میں پولر شفٹ جیسی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ یعنی سائنسی مفروضے کے مطابق اگر سائوتھ پول اور نارتھ پول ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں جگہ تبدیل کرلیں تو مقناطیسی کشش کے باعث زمین پر زلزلے، طوفان، سیلاب اور سورج کی گرمی کی آگ کے ناقابل بیان واقعات رونما ہوں گے جسے موجودہ انسان شاید برداشت کرنے کے قابل نہ ہو۔ نواز شریف نے شست لے کر جس گولہ باری کا ارادہ کیا ہے اُس حوالے سے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اُن کا داغا ہوا سب بارود واپس اُن پر ہی آکر گرے گا لیکن وہ یہ پیمائش کر چکے ہیں کہ اس بارود سے اٹھنے والی آگ، دھواں اور گرد وغبار بہت بڑے علاقے تک پھیل جائے گا۔ نواز شریف شاید بیلنس آف پاور یعنی طاقت کے توازن کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں جس میں مخالف کے مقابلے میں کم سے کم ڈیٹرنس ضرور رکھی جاتی ہے۔ نواز شریف اپنے نامعلوم مخالفین کو اُنہی کے رازوں سے ڈرا رہے ہیں۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ نواز شریف اِن رازوں کے افشاء کرنے کو محض دھمکی کے طور پر استعمال نہ کریں بلکہ انکشافات کا ہیروشیما جیسا واقعہ پیدا کردیں۔ نواز شریف سادہ دل ہیں یا زیرک سیاست دان؟ اس کی گواہی تو تاریخ بعد میں دے گی لیکن یہ ممکن ہے کہ نواز شریف نے اپنے سینے کے رازوں کے ریکارڈ کو بیرون ملک کسی بااعتماد جگہ پر محفوظ کردیا ہو اور اگر ان کے پر کاٹ دیئے گئے یا ان کے اردگرد اونچی اونچی دیواریں بنا دی گئیں تو وہی راز محفوظ جگہ سے نکل کر میڈیا کے پاس پہنچنے سے غیرمحفوظ ہوکر پبلک ہو جائیں گے۔ انہیں نہ جانے یہ اعتماد بھی کیوں حاصل ہے کہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف اُن کے نظریئے کی چین اور روس بھی مخالفت نہیں کریں گے۔ انہیں یہ اعتماد بھی نہ جانے کیوں حاصل ہے کہ اُن کے نظریئے کی ملک کے اندر بھی کافی بڑی تعداد اُن کی پارٹی سے ہٹ کر بھی اُن کی حمایتی ہے جو شاید ان کے خیال میں دو حصوں پر مبنی ہے۔ ایک وہ جو اُن کی حمایت ظاہری طور پر کررہے ہیں اور دوسرے وہ جو اُن کی حمایت دل میں کر رہے ہیں۔ بیشک حمایت کی ظاہری شکل کم ہے لیکن نواز شریف کے خیال میں یہ سمندر میں نظر آنے والی آئس برگ کی صرف چوٹی ہے جبکہ بہت بڑا برفانی پہاڑ گہرے پانیوں کے اندر موجود ہے۔ انہیں یہ اعتماد بھی نہ جانے کیوں حاصل ہے کہ اُن کے نظریئے کے خفیہ حمایتی رفتہ رفتہ ظاہر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس میں ان کی ذات کا جو نقصان ہو سو ہو، مستقبل میں ان کے نظریئے کا ضرور فائدہ ہوگا جو ملک کے روایتی سسٹم کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ انہیں اپنے نظریئے پر اتنا اعتماد ہو چلا ہے اور اس نظریئے کے اتنے بڑے عاشق بن گئے ہیں کہ وہ اپنے نظریئے سے مسلم لیگ ن اور اپنے قریبی ساتھیوں کے ہونے والے سیاسی نقصان کی بھی پروا نہیں کر رہے۔ شاید عشق کے یہی تقاضے ہوتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی پارٹی اور اپنے ساتھیوں کے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے نظریئے کی آبیاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن سیاسی موت کو بخوشی گلے لگا لے گی؟ معاملات کو ترتیب میں رکھ کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ مسلم لیگ ن وہ تمام روایتی سیاست جاری رکھے گی جس سے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ مسلم لیگ ن وہ تمام روایتی طریقے استعمال کرے گی جن کے ذریعے بڑی ناکامی سے بچا جاسکے۔ مسلم لیگ ن وہ تمام جوڑ توڑ کرے گی جن سے وننگ کینڈی ڈیٹس کو اپنی پارٹی میں قابو رکھا جاسکے۔ یہ سب کچھ نواز شریف نہیں بلکہ شہباز شریف کریں گے جن کی سیاسی لائن نواز شریف کی نظریاتی لائن سے الگ ہوگی لیکن شہباز شریف یہ کام دونوں سمتوں میں مکمل خاموشی رکھ کر کریں گے۔ پہلی سمت ان کے بڑے بھائی نواز شریف کی ہوگی۔ نواز شریف جو کررہے ہیں شہباز شریف اُس پر عموماً خاموشی اختیار کریں گے اور وہ نواز شریف جو چاہتے ہیں کرنے دو کی پالیسی پر عمل کریں گے جبکہ شہباز شریف دوسری طرف اپنے تیس برس کے روایتی سیاسی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی لوگوں اور سیاسی لوگوں کو بنانے والے بڑے لوگوں میں بھی خاموشی سے رابطے رکھنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ بڑے لوگوں کے حلقوں میں اب بھی عمران خان کی سیاسی پائیداری پر بات ہوتی ہوگی جبکہ زرداری کی باری کی بات پر بڑے لوگ مشکوک ہی رہتے ہوں گے۔ اس لئے شہباز شریف عمران خان کی سیاسی ناپائیداری اور زرداری پر مشکوک ہوائوں کو ہوا دینے اور فائدہ اٹھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر 2018ء میں انتخابات ہوتے ہیں تو ممکن ہے اگلی اسمبلی کی مدت میں دو حکومتیں بنیں جن میں پہلا نمبر شاید تحریک انصاف کی حکومت کا ہو جو تھوڑے عرصے بعد اپنی ناپائیداری کے باعث دھڑام ہو جائے۔ پھر دوسری پارٹی کو موقع ملے لیکن وہ پارٹی شاید زرداری پارٹی نہ ہو۔ اگر 2018ء میں انتخابات ہوتے ہیں تو دو حکومتوں کی باریوں کے ساتھ ایک ہی اسمبلی اپنی مدت پوری کرسکتی ہے اور یہ پاکستان کی مسلسل تیسری پارلیمنٹ ہوگی۔ تاہم اگر نواز شریف کا عشق اپنے نظریئے کے ساتھ پروان چڑھتا رہا تو وہ آئینی ترامیم اور قانون سازی میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرسکتے ہیں۔ ان کی طاقت اُس وقت بہت بڑھ جائے گی جب خاموش شہباز شریف اپنی خاموشی توڑ کر نواز شریف کی حمایت میں کھلم کھلا آجائیں گے۔ نواز شریف پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں جو نظریاتی راستے پر قدم بڑھانے کی ہمت کررہے ہیں۔ اُن سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کا نمبر آتا ہے لیکن وہ منزل کو نہ پہنچ سکے۔ اس نظریاتی راستے پر چلنا جہاں ایک بہت بڑی خبر ہے وہیں اس پر چلنے کی سزا بھی اتنی ہی بڑی ہے جس میں اکثر اوقات نام و نشان تو رہ جاتا ہے لیکن خود انسان مٹ جاتا ہے۔