جو قلب کو گرما دے
رمضان ایک ایسا مبارک مہینہ ہے جس کی فضیلت کسی اور مہینے کو حاصل نہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم۔) رمضان رحمت‘ برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ اسی ماہ میںاسلام کو سب سے پہلی فتح نصیب ہوئی۔ یہی مہینہ ہے جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس بے پناہ برکتوں اور فضیلتوں کے مہینے میں ہم سب پاکستانی عہد کریں کہ ہم نے مل کر اس ارض پاک میں رہنا ہے۔ اس ارض پاک کو ہم نے برکتوں اور فضیلتوں کے اسی مہینے میں حاصل کیا تھا اور یہی مہینہ ہمارے درمیان مساوات‘ اخوت اور باہمی رواداری کو قائم کر سکتا اور رشوت‘ سفارش‘ کرپشن کے خاتمے کا باعث بنی بن سکتا ہے۔ امید‘ کامیابی‘ ترقی و خوشحالی کا آ غاز ثابت ہو سکتا ہے اور اس وقت اس کی ضرورت ہے۔ہم مختلف جماعتوں‘ فرقوں‘ گروہوں میں بٹے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ دوسری طرف مسجد اقصیٰ پر قابض یہودی ہمارے فلسطینی مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ان کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ایک آزاد‘ خودمختار وطن چاہتے ہیں۔ اس بنیاد پر وہ قتل بھی کئے جا رہے ہیں اور دہشت گرد بھی ٹھہرائے جا رہے ہیں۔
طیب اردگان کو اللہ تعالیٰ ہمت‘ حوصلہ اور قوت دے جس نے بے حس اسلامی حکمرانوں میں ملت اسلامیہ کے دل کی آواز نہ صرف سنی بلکہ آگے بڑھ کر عالمی قوتوں کو للکارا۔ اس مرد قلندر نے صلاح الدین ایوبی کی یاد تازہ کر دی۔ حسن روحانی‘ مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسے رہنما اگر مل بیٹھ کر کوئی بھی فیصلہ کریں تو یقین مانیں ہم فلسطینی قوم کے سامنے ہرگز شرمند نہ ہونگے۔رمضان المبارک کے مہینے میں سوچ رہا ہوں پہلی اسلامی ایٹم قوت کدھر ہے جس کی افواج دنیا کی بہترین اور باصلاحیت فوج ہے۔ پیشہ ورانہ حیثیت میں بھی اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے 27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آنے والے ملک کے عوام اور حکمران کہاں گئے۔ یہ کسی صوبے ؛ پارٹی کی بات نہیں‘ نہ سندھی‘ پنجابی‘ بلوچی‘ پٹھان کشمیری کی بات ہے۔ میں بحیثیت پاکستانی اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں۔ ہم اس نازک وقت میں کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا کردار کیاہے؟ ہم اس لئے 27 رمضان المبارک کے دن کلمہ توحیدکی بنیاد پر آزاد ہوئے تھے کہ ہم کسی مظلوم مسلمان کی مدد نہ کریں گے۔ کسی مظلوم کی صدا نہ سنں گے۔ کسی مسلمان عورت کی چیخ و پکار پر کان بند کر لیںگے۔ میں تڑپ جاتا ہوں یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر اقبال کی اس نظم پر آنسو بہاتا ہوں
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے‘ جو روح کو تڑپا دے
پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے‘ پھر ذوق تقاضا دے
محروم تماشا کو پھر دیدہ بینا دے
دیکھا ہے جو میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
اور آخر میں اقبال خلاصہ کہہ گئے ہیں:
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں‘ محتاج کو داتا دے
رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں میں دن رات روتاہوا اقبال کا ترانہ پڑھتا ہوں‘اس امید پر کہ میرے ملک‘ میری قوم کو میرا رب وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے۔