• news
  • image

انسانیت فلسطین کے امتحان میں ناکام

پنٹاگون میں بیٹھے مذہبی انتہا پسند ٹولے نے مسلم دشمنی پر مبنی اپنے گھناﺅنے عزائم پر عمل درآمد کے لئے وائٹ ہاﺅس میں ایک خبط الحواس اور غیر متوازن سوچ کے حامل شخص کو مسلط کر رکھا ہے جو روزاول سے ہی اسلام دشمنی اور مسلم کش پالیسیوں پر گامزن ہے۔ یوں تو امریکہ کا ہر منتخب ہونے والا صدر مقتدر یہودی لابی کو خوش کرنے کے لئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کا وعدہ لیکر کر آتا ہے مگر عملدرآمد کے لئے کوئی جرا¿ت نہ کر سکا ۔ یاد رہے کہ 1995ءمیں امریکہ کی جانب سے اپنا سفارت خانہ تل ابیت سے بیت المقدس منتقل کرنے کا منصوبہ صرف تیار ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لئے باقاعدہ 85 ملین ڈالرز سے بھی زیادہ رقم مختص کی گئی ۔ جب سے اب تک آنے والا ہر صدر اس حرکت سے اپنے آپ کو بچاتا رہا ۔صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق 6 دسمبر 2017ءکو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت القدس منتقل کرنے کا فیصلہ کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا جس کے ردعمل میں پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے اور اس مذموم حرکت کی مذمت کی گئی مگر صدر ٹرمپ نے 128ممالک کی مخالفت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پانچ ماہ گزرنے کے بعد 14مئی کو فیصلے پر عمل کر دکھایا ۔ بیت المقدس کے مخصوص علاقے ارنونا میں ایک زبردست تقریب کا انعقاد کیا جس میں امریکی حکومتی عہدیدار ، سیاسی اور عسکری شخصیات پر مشتمل لگ بھگ آٹھ سو امریکی شریک تھے ۔ اسرائیل کے صدر ، وزیر اعظم اور حکومتی عہدیداروں کے علاوہ بڑی بڑی شخصیات بھی اس محفل میں دکھائی دیں۔ دوسری جانب اس خبر کے رد عمل کے طور پر فلسطینی احتجاج کرتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے جن پر صیہونی افواج نے براہ راست گولی چلادی۔ پورا علاقہ خون سے نہا گیا ۔ ہر جانب چیخ و پکار اور تڑپتی لاشیں دکھائی دیں ۔ اس موقع پر ستر لوگ شہید اور تقریباً اڑھائی ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ۔ مظاہرین پر فائرنگ کے علاوہ ملحقہ علاقوں پر بھی فائرنگ اور آتش گیر مادے کا استعمال کیا گیا۔ تیسری سمت سو سے زائد صہونی گماشتوں نے مسجد اقصیٰ قبلہ اول میں زبردستی گھس کر مذہبی رسومات کے نام پر بے حرمتی کرتے رہے ۔ وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف پوری دنیا سراپا احتجاج بن گئی ۔ یورپی یونین مشرقی وسطیٰ جنوبی ایشیاءکے ہر ملک میں احتجاج دیکھنے میں آیا۔ اقوام متحدہ میں چودہ بڑے ممالک کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے ایک طرف روس جرمنی برطانیہ سعودی عرب پاکستان ایران سمیت دیگر ممالک کے سربراہان سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے حالیہ بربریت کے خلاف موثر کردار ادا کرنے کو کہا دوسری جانب ہنگامی طور پر مسلم ممالک کے سربراہان کا اجلاس ترکی میں طلب کرتے ہوئے اسرائیل سے ترک سفارتی عملہ واپس بلا لیا گیا ۔
جمعہ کو انقرہ میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جناب طیب اردگان نے جرا¿ت مندانہ موقف اختیا ر کیا اور جذباتی لہجے میں کہا کہ اگر مسلمان قبلہ اول کی حفاظت نہیں کرسکتے تو خانہ کعبہ کی حفاظت کیسے کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ انسانیت فلسطین کے امتحان میں ناکام ہوگئی۔ تمام خاموش طاقتیں اس جرم میں برابر کی شریک ہیں ۔ حقوق کبھی پلیٹ میں رکھ نہیں دیے جاتے خود حاصل کئے جاتے ہیں ۔القدس کو ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ اسرائیل غزہ میں وحشیانہ اقدامات سے دہشت گرد ریاست ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ آج کا یہ غیر معمولی اجلاس فلسطینی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ۔ اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ فلسطینیوں کے لئے مل کر اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے کی ضرور ت ہے ۔ ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا ۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کی سخت مذمت کرتے ہیںاور مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ غزہ میں ہونے والی بربریت کی تحقیقات کرائی جائے ۔ انہو ں نے مزید کہا کہ ستر سال سے کشمیر بھی بھارتی جبرو بربریت کا شکار ہے جس کا کوئی تدارک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جمعہ کو یوم فلسطین کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔ او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس میں 18سربراہان مملکت سمیت 48 مسلم ممالک کے مندوبین نے شرکت کی ۔ نماز جمعہ کے بعد پاکستان کے ہر شہر میں مظاہرے دیکھنے میں آئے جس میں امریکہ بھارت اور اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیااور اقوام متحدہ کے پرچم کو پاﺅں تلے روند کر نفرت کا اظہار کیا گیا ۔کشمیر سمیت چاروں صوبوں میں شہدائے فلسطین کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی اور مسلم ممالک سے امریکی اسرائیلی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ۔ فرانس کے پوپ نے اسرائیلی بربریت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقدس سرزمین پر کشیدگی اور خون خرابے سے پریشان ہوں۔
قارئین کرام ۔ یوں تو قاہرہ میں عرب لیگ کا اجلاس ہواجو روایتی مذمتی قرارد اد تک محدود تھا۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ 10مئی سے قبل کسی مسلم سربراہ نے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کے حوالے سے آواز نہیں اٹھائی ۔ حالانکہ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیاں اور اسرائیلی میڈیا مستقل سفارت خانے کی منتقلی کی خبریں نشر کر رہا ہے ۔ 7مئی کو اس عمارت پر امریکی سفارت خانے کے بورڈ نصب ہو چکے تھے جو پوری دنیا میں دیکھے گئے مگر کسی مسلم حکمران کی دینی غیرت و حمیت نے جوش نہیں مارا۔ اگر یہ ہنگامی اجلاس اور قرار دادیں بروقت کی جاتیں تو اسرائیل کو خاک و خون کا کھیل کھیلنے سے باز رکھا جا سکتا تھا ۔ شاید ساٹھ ستر لوگوں کی جانیں بچ سکتی تھیں ۔ جہاں تک پنٹاگون اور صدر ٹرمپ کا تعلق ہے ان کی ایرانی ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے علاوہ اسرائیل اور بھارت کی پشت پناہی دنیا کو تیسری جنگ عظیم کی جانب دھکیل رہی ہے ۔ اگر تیسری جنگ عظیم چھڑی تو سب سے پہلے امریکہ کو اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا اور ٹرمپ کی داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن