باہمت سائیکلسٹ اور پنجاب کے وزیر کھیل کی بے رخی!!!!
لاہور کے ایک نوجوان نے سائیکل پر پاکستان کا چکر لگا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ عبدالرحمن پالوا نے اکیس ہزار چھ سو پچاس کلو میٹر کا سفر ایک سو اسی دنوں میں مکمل کیا ہے۔ انہوں نے یہ کاوش گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیے کی ہے۔ ان دنوں عبدالرحمن اپنی ضروری چیزیں جمع کر رہے ہیں تاکہ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو بھیجی جائیں اور انکے اس ریکارڈ کی تصدیق کے بعد اسے قانونی حیثیت دے دی جائے۔ عبدالرحمن نے سائیکل پر میدانی، پہاڑی اور ریگستانی علاقوں پر سفر کر کے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران انہوں نے کے پی کے، بلوچستان، شمالی علاقے اور جنوبی پنجاب کے علاقوں کا بھی سفر کیا ہے۔ انکے مطابق ایک سو اسی دنوں میں انہوں نے بارہ دن آرام کیا۔ ہر تیس منٹ کے بعد آرام کرتے تھے روزانہ ڈیڑھ سو زائد کلو میٹر کا سفر طے کرتے تھے۔ مختلف علاقوں میں افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے بہت تعاون کیا اور حوصلہ افزائی کی جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف علاقوں میں سفر سے باخبر رہنے والوں نے بھی بہت تعاون کیا۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اس سفر پر انکے لگ بھگ پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اس سفر کے شروع کرنے سے پہلے بھی سپورٹس بورڈ پنجاب کو پرپوزل بھیجا تھا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا میں سائیکل پر اکیس ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کر کے واپس آ گیا ہوں ادھر سے کوئی خبر نہیں آئی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ کسی نے مبارکباد تک نہیں دی۔ جبکہ سفر مکمل کر کے واپس آنے پر میں نے خود سپورٹس بورڈ پنجاب سے رابطہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
یہ اس سپورٹس بورڈ کی کارکردگی ہے جس کے تمام بڑے عہدیداران چند دن پہلے باکسر عامر خان کے آگے بچھے بچھے جا رہے تھے۔ عامر خان پاکستانی نژاد برطانوی باکسر ہیں وہ پاکستان کیوں آتے ہیں کیا کرتے ہیں اس پر پھر کبھی بات ہو گی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا کھلاڑی جو بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتا اسکے لیے سب پروٹوکول آفیسر بنے نظر آتے ہیں اس لیے کہ وہ شہرت میں اپنے کھلاڑیوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ ذرا روشن خیالی نظر آتی ہے، اس لیے کہ بیرونی دنیا میں ہمارے بارے بات چیت ہوتی ہے ان بناوٹی چیزوں پر اپنے حقیقی ٹیلنٹ کو فوقیت دینے سے کیا ملک میں کھیلوں کے شعبے میں ترقی ممکن ہے، کیا ایسے اقدامات سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ اپنے کھلاڑی دفاتر کے چکر لگاتے رہیں انکی بات نہ سنی جائے اور باہر سے آنیوالوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔
کیا عبدالرحمن پالوا کے سائیکل پر اکیس ہزار چھ سو پچاس کلو میٹر سفر کی کوئی حیثیت نہیں، کیا اسکے سخت موسموں میں سڑکوں پر گذرے ایک سو اسی دن بھی حکمرانوں،وزیروں اور مشیروں کا دل جیت نہیں پائے۔ اصولی طور پر حکومت پنجاب کی اس کوشش کو مالی معاونت ہونی چاہیے تھی۔ وزیر اعلی پنجاب کھیل دوست ہیں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیا وہ ابھی تک اس باہمت سائیکلسٹ کی کاوش سے بے خبر ہیں۔ کیا سپورٹس بورڈ پنجاب اور کھیلوں کے صوبائی وزیر نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلی کو بھی اس حوالے سے تفصیلات نہیں پہنچائیں۔ ماضی میں فور برادرز سائیکلوں پر لمبا سفر طے کیا کرتے تھے اس وقت انہیں ہر جگہ حکومتی سطح پر خوش آمدید کہا جاتا تھا اور انکے ساتھ مکمل تعاون کیا جاتا تھا ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر ہاوس کے دروازے کھل جاتے تھے آج پرنٹ میڈیا ہے متحرک اور فعال الیکٹرانک میڈیا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہر پل ایک نئی خبر ملتی ہے پھر بھی حکمران اتنے بے خبر ہیں۔
کیا صوبائی وزیر کھیل کا کام صرف مبارکباد کے بیانات جاری کرنا اور مقابلوں کی افتتاحی و اختتامی تقریبات میں شریک ہونا ہے۔ ایسے باہمت نوجوانوں کی حوصلہ فزائی متعلقہ شعبہ نہیں تو کون کرے گا۔ امید ہے میاں شہباز شریف کھیل دوست روایت کو برقرار رکھتے سائیکل پر اکیس ہزار پانچ سو ساٹھ کلومیٹر کا سفر طے کرنیوالے باہمت نوجوان کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔