نگران وزیراعظم کیلئے ایک اور ملاقات بے نتیجہ:نیب کا کالا قانون ختم نہ کرناہماری غلطی ہے : شاہد خاقان عباسی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے نہ ہو سکا، جس کے باعث اپوزیشن لیڈر کی وزیر اعظم سے پانچویں ملاقات بھی بے نتیجہ رہی اور معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ سے نکل کر الیکشن کمشن کے پاس جانے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ منگل کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی 35منٹ تک ملاقات وزیراعظم آفس اسلام آباد میں ہوئی، جس میں نگران وزیراعظم کے ناموں پر غور کیا گیا، تاہم نگران وزیراعظم کے نام پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ ملاقات کے بعد خورشید شاہ نے میڈیا سے مختصر گفتگو کی اور بتایا کہ نگران وزیراعظم کے نام کے انتخاب کے لیے آج یا کل وزیراعظم سے دوبارہ ملاقات ہو گی۔ امید ہے اس ملاقات میں کسی ایک نام پر اتفاق ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ملاقات میں بھی تمام ناموں پر غور کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے تجویز کردہ سارے نام اچھے اور قابل احترام ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا وزیراعظم سے کہا ہے کہ نوازشریف کہہ چکے ہیں اپوزیشن لیڈر کے ناموں کو ہی لینگے جبکہ حکومت نے اپنے نام بھی دیئے ہیں تاہم جو بات پہلے کی ہے اسی پر عمل ہونا چاہئے۔ اس معاملہ پر دوبارہ بات کرلیتے ہیں اس کے لیے وقت لیا ہے، جو نام حکومت نے دیئے تھے ان ناموں میں کوئی نیا نام شامل نہیں کیا تاہم 2 دن ہیں اور مزید نام بھی سامنے آسکتے ہیں۔ ملاقات ہوگئی، گیم اب حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہ ہونے کے باعث معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ سے نکل کر الیکشن کمشن کے پاس جانے کا خدشہ ہے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت 31 مئی 2018 کو ختم ہو جائے گی جس کے بعد نگران حکومت آئندہ انتخابات تک اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گی۔ نگران وزیر اعظم کے لئے کسی ایک نام پر اتفاق کی پوری کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اسی میں پارلیمنٹ کی بہتری ہے لیکن اگر اتفاق نہ ہو سکا تو 4، 4 ارکان پرمشتمل حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جو تین دن کے اندر کثرت رائے سے فیصلہ کرے گی۔ تاہم اگر اختلاف برقرار رہا تو حکومت اور حزب اختلاف کے تجویز کردہ نام الیکشن کمشن کو بھیجے جائیں گے اور دو دن کے اندر کسی ایک نام کو فائنل کرکے الیکشن کمشن اعلان کرے گا۔ واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف اور سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے نام تجویز کیے گئے تاہم تحریک انصاف نے ذکا اشرف کا نام مسترد کردیا جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، عبدالرزاق اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام تجویزکیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو راضی کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کسی سابق جج یا بیوروکریٹ کے نام پر اتفاق نہیں چاہتے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تیسری بار نواز شریف کو راضی کرنے کے لیے وقت مانگا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام پر ابھی اتفاق رائے نہیں ہوا۔ الیکشن 2018ء کے انعقاد کیلئے 28جولائی آخری تاریخ ہے۔ انتخابات میں مختلف تشبیہات دی جاتی ہیں، اشاروںکی سیاست ہم نے پیچھے چھوڑ دی ہے۔ نواز شریف کی بات کو بھارت نے اپنے مقاصد کیلئے توڑا مروڑا۔ نوازشریف نے یہ بات نہیں کہی کہ یہاں سے لوگ ممبئی بھیجے گئے۔ نوازشریف فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے ہیں۔ نوازشریف کے بیانیے کو غلط انداز میں رپورٹ کیا گیا۔ نوازشریف کا نام کسی گواہ نے نہیں لیا۔ نیب صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کیلئے بنائی گئی تھی ہم سے غلطی ہوئی نیب کا کالا قانون ختم کرنا چاہئے تھا۔ نیب کالا قانون ہے، سیاست میں مداخلت ہے۔ نوازشریف نے کبھی ڈیل کی نہ کریں گے۔ خورشید شاہ نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دلچسپ پیرائے میں کہاکہ ’’ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا زیادہ پریشان نہ ہوں‘‘۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل ہو، وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہمارے دئیے گئے نام اچھے ہیں ان پر مزید غور کرنا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ حکومت نے اپنے دئیے گئے ناموں پر ابھی اصرار نہیں کیا، حکومت کے نام بھی اچھے ہیں۔باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اپنی ’’اعلی قیادت،، کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، میاں نواز شریف کو منا رہے ہیں جبکہ آصف زرداری کو منانا خورشید شاہ کی مجبوری ہے اس لئے نگران وزیرعظم کے نام پر اتفاق رائے میں دونوں کو پیش رفت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کچھ ناموں پر اتفاق رائے پایا جا رہا ہے۔ لیکن دونوں جماعتیں ’’ڈسیپشن پلان،، کے مطابق چل رہی ہیں عین آخری روز نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کرکے سرپرائز دیں گے۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف سابق جج یا بیوروکریٹ کی بجائے کسی سیاستدان کو نگران وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔