2014 ءمیں انٹیلی جنس سربراہ کا پیغام آیا استعفی دو یا رخصت پر جاﺅ‘ نوازشریف ‘ مشرف کیخلاف غداری کیس پر مجھے ہٹا کر مقدمات بنائے گئے : قائد مسلم لیگ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نامہ نگار+ چودھری شاہد اجمل) مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں، میں نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی باگ ڈور منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کی اور اپناگھر ٹھیک کرنے کی بات کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے کردیا، مشرف کا تو کچھ نہیں بگڑے گا لیکن آپ کے لئے مشکلات پیدا ہوجائیں گی لیکن میں نے مشورہ نما دھمکیوں کو مسترد کردیا‘ ایک انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے مجھے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا پیغام بھجوایا اور کہا گیا کہ اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو طویل رخصت پر چلے جاﺅ‘ ڈکٹیٹر کو عدالتی کٹہرے میں لانا آسان کام نہیں۔ بھاری پتھر اٹھانے کا ارادہ ترک کر دو۔ قانون و انصاف کے سارے ہتھیار صرف اہل سیاست کے لئے بنے ہیں۔ وہ پنجاب ہاﺅس میں ہنگامی پریس کانفرنس کررہے تھے۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید‘ سینیٹر پرویز رشید‘ مریم نواز‘ سینیٹر آصف کرمانی سمیت دیگر مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ موجود تھے۔ نواز شریف نے کہا میں پاکستانی قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے اور مقدمات کا کھیل کھیلنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے نامہ اعمال کے اصل جرائم کیا ہیں۔ سر جھکا کر نوکری نہ کرنا میرے خلاف مقدمات کی وجہ بنی، دھرنوں کا مقصد بھی مشرف کے معاملے پر دباﺅ میں لانا تھا عمران، قادری کو یکجا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر دور کے آمروں کو خوش آمدید کہنے والے منصفوں نے آگے بڑھ کر مشرف کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ 8سال بعد 3نومبر 2007 کو اس نے ایک بار پھر آئین توڑا‘ ایمرجنسی کے نام پر ایک بار پھر مارشل لاءنافذ کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ کے لگ بھگ جج صاحبان کو اپنے گھروں میں قید کردیا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کی شرمناک واردات کی نظیر شاید ہی ملتی ہو۔ نواز شریف نے کہا کہ اس سے بھی پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آصف علی زرداری ایک اہم قومی سیاسی رہنما کے ہمراہ میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے ذریعے مشرف کے دوسرے مارشل لاءیعنی نومبر 2007 کے اقدام کی توثیق کردینی چاہئے۔ زرداری صاحب نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور مصلحت سے کام لینے کا کہا۔ میں نے کہا کہ ہم 65 برس سے ایسی مصلحتوں سے کام لے رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ آئین سے غداری کرنے والے ڈکٹیٹر کو اس کے غیر آئینی اقدام کی پارلیمانی توثیق کرنے کے بجائے اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ 2013ءکے اواخر میں غداری مقدمہ قائم کرنے کا عمل شروع ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ ڈکٹیٹر کو عدالت کے کٹہرے میں لانا کوئی آسان کام نہیں۔ شاید قانون و انصاف کے سارے ہتھیار صرف اہل سیاست کے لئے بنے ہیں۔ جابروں کا سامنا ہوتے ہی ان ہتھیاروں کی دھار کند ہوجاتی ہے اور فولاد بھی موم بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو وہ دن بھی یاد ہوگا جب جنوری 2014 میں ہائی ٹریزن کا ملزم گاڑیوں کے جلوس میں عدالت پیشی کے لئے اپنے محل سے نکلا اور اچانک کسی طے شدہ پلان کے تحت وہ راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچ گیا جہاں وہ کسی پراسرار بیماری کا بہانہ کرکے ہفتوں قانون اور عدالت کی دسترس سے دور بیٹھا رہا۔ سیاستدانوں اور وزیراعظم کے منصب پر بیٹھنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اور آج بھی ہورہا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں لیکن کوئی قانون نہ تو غداری کے مرتکب ڈکٹیٹر کو ہتھکڑی ڈال سکا نہ اسے ایک گھنٹے کے لئے جیل بھیج سکا۔ اس کی نوبت آئی بھی تو اس کے عالی شان محل نما فارم ہاﺅس کو سب جیل کا نام دے دیا گیا۔ نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پرا۔ اس کے باوجود جب میرے عزم میں کوئی کمزوری نہ آئی تو 2014 کے وسط میں انتخابات میں نام نہاد دھاندلی کا طوفان پوری شدت سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس طوفان کے پیچھے بھی یہی محرک چھپا تھا کہ مشرف کے معاملے میں مجھے دباﺅ میں لایا جائے۔ میں دھرنوں سے صرف دو ماہ قبل مارچ 2014 میں اپنے دو رفقاءکے ہمراہ بنی گالہ میں عمران خان سے ملا تھا یہ ایک خوش گوار ملاقات تھی۔ انہوں نے دھاندلی کے موضوع پر کوئی بات کی نہ ہی کسی احتجاجی تحریک کا اشارہ دیا۔ لیکن ادھر پرویز مشرف کے مقدمے میں تیزی آئی اور ادھر اچانک لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کی ملاقات ہوئی۔14 اگست 2014 سے شروع ہونے والے یہ دھرنے چار ماہ جاری رہے۔ ان دھرنوں کے دوران جو جو کچھ ہوا وہ سب اس قوم کے سامنے ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کا مشترکہ مطالبہ صرف یہ تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائے۔ ان دھرنوں کے دوران جو کچھ ہوا اس کی پوری تفصیلات قوم کے سامنے ہیں۔ اس تماشے نے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اصل مقصد ایک ہی تھا کہ مجھے وزیراعظم ہاﺅس سے نکال دیا جائے تاکہ مشرف کے خلاف مقدمے کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکے۔ منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اس شدید اور طویل یلغار سے میرے اعصاب جواب دے جائیں گے اور میں خود کو بچانے کے لئے ہر طرح کے کمپرومائز پر آمادہ ہوجاﺅں گا۔ بلا شبہ یہ ایک سوچا سمجھا اور نہایت ہی سخت حملہ تھا ایسے دن بھی آئے کہ وزیراعظم ہاﺅس میں داخل ہونے اور باہر جانے والے راستوں پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا۔ دھرنوں کے ذریعے مجھ پر لشکر کشی کرکے مجھے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ نواز شریف نے کہا کہ میں اپنے اقتدار میں اپنی ذات کو خطرے میں ڈال کر کیوں بضد تھا کہ ایک ڈکٹیٹر کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔ صرف اس لئے کہ آمریتوں نے پاکستان کے وجود پر گہرے زخم لگائے ہیں۔ آئین شکنی یا اقتدار پر قبضے کا فیصلہ ایک یا دو تین جرنیل کرتے ہیں اقتدار کی لذتیں بھی صرف مٹھی بھر جرنیلوں کے حصے میں آتی ہیں لیکن اس کی قیمت مسلح افواج کے پورے ادارے کو ادا کرنی پڑتی ہے ۔ میں اپنی مسلح افواج کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میںنے ایٹمی دھماکے کئے۔ آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔ میں نے مشرف کے خلاف مقدمات نہ بنانے سے کردیا۔ میں نے اپنے گھر کو درست کرنے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا۔ میں خارجہ پالیسی کو قومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس لئے مجھے منصب سے ہٹانا، پارٹی سے ہٹانا، عمر بھر کیلئے نااہل قرار دے ڈالنا اور سیاست کے عمل سے خارج کردینا ہی واحد حل سمجھا گیا۔ استغاثے کا کوئی گواہ میرے خلاف اپنے الزامات کا کوئی ادنیٰ سا ثبوت بھی پیش نہیں کرسکا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ استغاثہ کے گواہوں نے بھی عملاً امیرے موقف کی تصدیق کی ہے۔ پانامہ پیپرزمیں دنیا کے کئی ممالک کے ہزاروں افراد کے نام آئے ہیں۔ ان میں حکمران بھی تھے اور سیاسی لیڈر بھی ۔مجھے معلوم نہیں کہ ساری دنیا میں ان پیپرز کی بنیاد پر کتنے افراد کے خلاف مقدمات بنے، کتنے افراد کو سزائیں ملیں، کتنے وزرائے اعظم یا صدر کو معزول کیا گیا اور کتنے عمر بھر کےلئے نااہل قرار پائے۔ پانامہ کے نام پر یہ سب کچھ صرف ایک ایسے شخص کے خلاف ہوا جس کا پانامہ میں نام تک نہ تھا۔ کیا آج سے 19سال قبل یہ سب کچھ ”پانامہ“ کی وجہ سے ہورہا تھا؟ کیا میرے ساتھ یہ سلوک لندن فلیٹس کی وجہ سے کیا جارہا تھا؟ نہیں جناب والا! انیس بیس سال پہلے بھی میرا قصور وہی تھا جو آج ہے۔ نہ اس وقت کسی پانامہ کا وجود تھا نہ آج کسی پانامہ کا وجود ہے۔ علاوہ ازیں احتساب عدالت میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو میں نواز شریف نے کہاہے کہ پوری قوم میرے بیانیے سے متفق ہے اور اگلا الیکشن ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر ہو گا، اب تو لوگ مجھے کہتے ہیں ہم نعرہ لگائیں گے "ووٹ کو"اور تم کہنا "عزت دو"،وفاقی وزیر دانیال عزیز کو تھپڑ مارنا افسوسناک عمل ہے، یہ تحریک انصاف کا کلچر ہے جس کے ذمہ دار عمران خان ہیں،تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں کیا کام کیا، وہ کوئی قابل ذکر کارنامہ بتادیں، سوائے دھرنوں اور امپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے کے ،کہاں ہے نیا پاکستان، کہاں ہے نیا خیبرپی کے ؟، یو این ڈی پی کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ خیبرپی کے جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے ہے۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں جھڑپ سے متعلق سوال پر نواز شریف نے کہا کہ دونوں رہنما ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے، خیبرپی کے اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کے ممبران گھتم گھتا ہوتے رہے، ایک ایک کر کے پی ٹی آئی کے سارے پول کھل رہے ہیں، صحافی نے سوال کیا کہ تحریک انصاف نے سو دن کا پلان دیا ہے، کیا کہیں گے؟ اس پر نواز شریف نے کہا کہ وہ پہلے بھی دے چکے ہیں لیکن عمل کیا کیا، پی ٹی آئی نے کہا تھا 300 ڈیم بنائیں گے، کہاں ہیں ڈیم؟ اور کہاں ہیں وہ درخت جو کہے تھے لگائیں گے ۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا 50ہزار میگا واٹ بجلی کہاں ہے جو تحریک انصاف نے کہا تھا اور کہاں ہے نیا پاکستان، کہاں ہے نیا خیبرپی کے ؟۔نواز شریف نے کہا کہ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میڈیا کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے، یہ افسوسناک عمل ہے، ہر چیز نوٹ کی جا رہی ہے اور یاد رہے قوم بھی ہر چیز نوٹ کر رہی ہے۔صحافی کے سوال کہ اگلا الیکشن کس نعرے پر ہو گا؟ کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اگلا الیکشن "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے پر ہوگا، اب تو لوگ مجھے کہتے ہیں ہم نعرہ لگائیں گے "ووٹ کو" اور تم کہنا "عزت دو"۔صحافی نے ایک اور سوال کیا کہ آپ کی پارٹی آپ کے بیانیے سے متفق ہے؟ جس پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پوری قوم میرے بیانیے سے متفق ہے۔ نواز شریف نے کہاکہ دانیال عزیز کو تھپڑ مارنا افسوسناک عمل ہے، یہ پی ٹی آئی کا کلچر ہے،اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک،ایک کر کے پی ٹی آئی کے سارے پول کھل رہے ہیں۔ قبل ازیں احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس میں اپنا بیان قلمبند کروا دیا‘ سابق وزیراعظم نے عدالت کی طرف سے پوچھے گئے 128سوالوں کے جواب تین روز میں تحریری بیان پڑھ کر دیئے۔ عدالت میں مریم نوا زشریف ،کیپٹن (ر)صفدر،مریم اورنگزیب، دانیال عزیز سمیت مسلم لیگ(ن) کے قائدین نے میاں نواز شریف کا بیان خاموشی سے سنا جبکہ عدالت میں موجود دیگر وکلاءاور صحافیوں نے بھی ہمہ تن گوش ہو کر بیان سنا ،دوران سماعت اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق وزیراعظم نے احتساب عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کاش آج یہاں لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی روح کو طلب کر سکتے اور پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا اور انہیں آئینی مدت پوری کرنے کیوں نہیں دی گئی۔بیان کے دوران جب میاں نواز شریف نے عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی لفظ کی تشریح کے لئے گمنام ڈکشنری استعمال کی جاتی ہے ؟جس پر معزز جج نے ریمارکس دئیے کہ یہ سوالات آپ جاکر انہی سے پوچھیں ،بیان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ سابق وزیر اعظم نے کوئی گواہ یا شواہد پیش کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح سے انہوں نے فاضل جج سے مکالمہ کیا کہ کیا کہ آپ کو بھی اندازہ ہے کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں ؟جس پر جج محمد بشیر نے کوئی ریمارکس نہ دئیے بلکہ میاں نواز شریف کے بیان کو غور سے سنتے رہے،اس طرح سے جب میاں نواز شریف نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ان ججوں کو جو میرے خلاف فیصلہ دے چکے ہوں بینچ کا حصہ یا مانیٹرنگ جج لگایا جاسکتا ہے؟جس پر فاضل جج نے ایک بار پھر کہا کہ آپ یہ سوال ان ہی سے جا کر پوچھیں ،اسی طرح سے میاں نواز شریف نام لیے بغیر عدالت کے روبرو یہ بھی کہہ گئے کہ مجھے نکالنے اور نااہل کرانے سے کچھ لوگوں کی تسکین ہو گئی،نواز شریف نے اپنی 70پیشیوں کا بھی ذکر کیا۔ بیان کے دوران 20منٹ کا وقفہ بھی ہوا اور میاں نواز شریف کا بیان دوگھنٹے میں مکمل ہوا،میاں نواز شریف کا بیان مکمل ہونے کے بعد مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر کا بیان ریکارڈ ہونا باقی رہ گیا ہے جس کے بعد ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی کارروائی مکمل ہو جائے گی۔سماعت سے قبل میاں نواز شریف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو بھی کی۔میاں نواز شریف جب بیان ریکارڈ کراکے عدالت سے چلے گئے تو فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں احتساب عدالت کے قریب سانپ نکل آیا،پولیس اہلکاروں سے ڈنڈوں سے سانپ کو مار دیا، سانپ اس جگہ سے برآمد ہوا جہاں پولیس اہلکار مین گیٹ کے ساتھ حصار بنا کر کھڑے ہوتے ہیں۔
سنجوال کینٹ‘اٹک (نامہ نگار+نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اٹک میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نکال کر پاکستان کی ترقی کو روکا گیا۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا جو 20، 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کر کے چلے گئے۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا جن کی کارکردگی صفر بٹا صفر رہی۔ خیبر پی کے کو آثار قدیمہ بنانے والوں نے بھی عوام کو دھوکہ دیا۔ اٹک سے جیل کا رشتہ ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اٹک میں مسلم لیگ ن ورکرز کنونشن سے خطاب میں کہا ہے کہ نوجوانوں کے لیے دن رات کام کر رہا تھا۔ میری عوام کے لیے خدمت کو نظرانداز کر کے نااہل کر دیا گیا۔ ملک سے لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ اٹک پنجاب کا بہترین ضلع بن رہا ہے۔ عمران خان نے خیبر پی کے کو کھنڈر بنا دیا۔ خیبر پی کے میں مخالفین کی کارکردگی کا پول کھل گیا۔ عمران خان نے خیبر پی کے کے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ موٹر وے کو چین کے بارڈر تک لے کر جائیں گے۔ لاہور سے کراچی موٹر وے بن رہی ہے۔ پاکستان کی ترقی کا پہیہ رک گیا۔ اٹک والوں سے میرا جیل کا رشتہ ہے۔ مجھے اٹک قلعے میں بند کیا گیا۔ چودہ ماہ تک مجھے جیلوں میں بند رکھا گیا۔ نیا خیبر پی کے بنانے والے آ کر پنجاب کی ترقی دیکھیں۔ کیا منتخب وزیراعظم کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کو ہائی جیکر بنا دیا گیا۔ جو لوڈ شیڈنگ کے ذمہ دار تھے انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ملک بھر میں موٹر ویز کا جال بچھ رہا ہے۔ سال 2013 میں روزانہ دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے۔ آج کا پاکستان 2013 سے کہیں بہتر ہے۔ اگر میری نااہلی ختم کرنی ہے تو عوام زیادہ ووٹ دیں۔ آئندہ ووٹ کی عزت خود اور دوسروں سے بھی کرائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اٹک میں ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سال بعد اٹک آئی ہوں۔ اٹک جیل میں میرے والد اور بھائی کو قید کیا گیا۔ جب اٹک جیل میں والد اور بھائی سے ملنے آتے تھے تو اٹک کے لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ سال 1999ءمیں میاں صاحب کو کہا گیا استعفیٰ دیں تو انہوں نے انکار کر دیا۔ نواز شریف 18 سال پہلے بھی اٹک جیل میں عوام کی محبت کی سزا بھگت رہا تھا آج بھی نیب کورٹ میں میاں صاحب صبح 9 بجے تک بیان ریکارڈ کراتے ہیں، آج تیسرا دن ہے، میاں صاحب روزے سے ہوتے ہیں اور 4 گھنٹے بیان ریکارڈ کراتے ہیں۔ پانامہ میں جس کا نام نہیں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ جن چار سو لوگوں کا پانامہ میں نام ہے ان کی ایک پیشی بھی نہیں ہوئی۔
مریم نواز