• news
  • image

ہاکی والوں کا کل آج اور آنیوالا کل !!!!!!!

اولمپئین خواجہ ذکاء الدین کہتے ہیں کہ زندگی میں بہت مرتبہ ناکام ہوئے کچھ کامیابیاں بھی ملیں۔ جب ہار کر آتے تھے پوسٹ مارٹم ہوتا تھا ہٹا دیا جاتا تھا اپنا سکوٹر پکڑتے اور ڈیوٹی پر نکل جاتے پھر جب بلایا جاتا آ کر کام شروع کر دیتے۔ نہ گھر بھیجنے والوں کو برا بھلا کہا نہ بلانے والوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کیا۔ اپنے کام سے کام رکھا، کام سے دل لگایا، محنت اور میرٹ کو اولین ترجیح دی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کھیلتے ہوئے تھوڑی بہت کامیابی ملی اور کوچنگ کرتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں نظر آ جاتا ہوں۔ یہ طریقہ نامناسب ہے کہ ہر وقت ایک ہی کام پھنسے رہیں۔ ضرورت ہو یا نہ ہو،موقع ہو یا نہ ہو، کوئی ذمہ داری دینا چاہے یا نہ دینا چاہے ہم ہر وقت اس آس میں لگے رہیں کہ اب ہماری ہی باری ہے پھر ہماری باری ہے ہھر ہماری باری ہے اور ہمیشہ ہماری ہی باری رہے گی۔ ہمیں اس طرز عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج کتنے لوگ ایسے ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو کسی دوسرے کو بھی کام کرنیکا موقع دینا چاہتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کو برداشت کرنیکا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہاکی سے اچھی خبریں آنا بند ہو گئی ہیں۔ نہ اچھی خبریں آتی ہیں، نہ اچھے منتظم، نہ اچھے کوچ، نہ اچھے مینجر، نہ اچھے کھلاڑی، نہ ہی اچھے نتائج۔ ہاکی کھیلنے والے آج ہاکی کے ساتھ ہی کھیلتے نظر آتے ہیں۔
خواجہ ذکاء الدین بلاشبہ ہماری تاریخ کے کامیاب ترین کوچ ہیں۔ انکے پاس کئی ایک گولڈ میڈلز اور بڑی کامیابیاں ہیں۔ ان جیسے لوگ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ منیر ڈار مرحوم اور ذکائ￿ الدین کی جوڑی کو ہاکی فیملی آج بھی بہت مس کرتی ہے۔ ایک پودا منیر ڈار نے اپنی زندگی میں ہاکی اکیڈمی میں صورت میں لگایا تھا آج وہ پودا ایک سایہ دار درخت بن چکا ہے اور منیر ڈار مرحوم کے صاحبزادے توقیر ڈار اسکے نگہبان بن کر قومی کھیل سے جو حاصل کیا ہے اسے لوٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ڈار ہاکی اکیڈمی کے قیام کو بارہ برس ہو چکے اس عرصے میں یہاں سے کئی کھلاڑی پاکستان کی جونئیر و سینئر ٹیموں کی نمائندگی کر چکے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہنے کی امید ہے۔ توقیر ڈار کسی سیٹ یا کرسی کے حصول کے بجائے ڈار ہاکی اکیڈمی کے ذریعے اپنے خاندان کے ذمہ ہاکی کا قرض لوٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے کتنے افراد ہیں جو کھلاڑیوں کو کھیل کے معیاری مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں گنتی مشکل نہیں ہے۔ جب کبھی ہاکی کے لیے جنونی افراد کا ذکر ہوتا ہے تو استاد محترم سید سلطان عارف اور بازید خان برکی بھی شدت سے یاد آتے ہیں۔ ایسے لوگ چلے گئے ہاکی لاوارث ہو گئی۔ ہاکی عہدوں کے حصول کے چکروں اور سازشوں میں کھو گئی، ہاکی بیانات اور الزامات میں پھنس کر رہ گئی، ہاکی بس دوستوں کو نوازنے کا ذریعہ رہ گئی، ہاکی سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے تک محدود ہو گئی۔ کام کرنے والے لوگ چلے گئے اب کام نکالنے اور کارروائیاں کرنیوالے نظر آتے ہیں۔
اردگرد دیکھ لیں کوئی بچا نہیں جو ہاکی کے نمائشی درد کو لیکر کام کرنے آیا اپنا کام نکالا، دوستوں کو کام دیا اور چلا گیا۔ گذشتہ روز ہی کسی نے ایک تصویر بھیجی۔ کسی ٹی وی پروگرام کی میزبان کے ایکطرف شہباز احمد سینئر دوسری طرف خواجہ جنید کھڑے تھے۔ شاید اب وہ شہباز سینئر کو دئکھنا بھی پسند نہ کریں۔دونوں میں خاصی قربت تھی خواجہ جنید کو سینئر ٹیم کا ہیڈ کوچ بھی لگایا گیا تاہم غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر انہیں گھر بھیج دیا گیا اس کے بعد سے وہ ہاکی فیڈریشن کے فیصلوں کے بڑے نقاد ہیں۔ اگر وہ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہوتے تو کیا انکا طرز عمل یہی ہوتا۔ 2012 میں مرحوم منصور احمد اور ثقلین کے ساتھ ہم نے ہاکی سٹیڈیم کے باہر گیم بیٹ کی ریکارڈنگ کی دانش کلیم باوجود وعدے کے آفس سے نکل کر پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف نہ لائے آج وہ بھی آئین و قانون کی باتیں کر رہے ہیں۔ کیا آصف باجوہ، رانا مجاہد اور اختر رسول کے دور میں ہونیوالے تمام کام عین آئینی و قانونی تھے۔ فرق صرف کرسی کی پوزیشن کا تھا اس وقت انکی کرسی میز کے اندر کی طرف تھی آج باہر کی طرف ہے۔ اس وقت نوید عالم فیڈریشن کو پرسنل ہاکی فیڈریشن کہا کرتے تھے آج احتجاج کرنے والے اس ادارے کو فیملی ہاکی فیڈریشن کہہ رہے ہیں۔ آج ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈیویلپمنٹ اولمپئین نوید عالم اندر بیٹھے ملتے جلتے اقدامات کو قانونی قرار دیتے ہیں۔ ایک بات حقیقت ہے وہ کل بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ایک بڑا آزاد اور خود مختا اداراہ بنانے کی بات کرتے تھے آج بھی اس موقف پر قائم ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں لگ بھگ تیس ماہ میں اس کے لیے کیا کام کیا ہے؟؟؟؟
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ہاکی پلئیر میر ظفر اللہ خان جمالی کا نام کیش کروا کر عہدے لے لیں تو سب اچھا گھر بھیج دیے جائیں تو سب غلط۔ ایسے افراد کی فہرست خاصی طویل ہے۔ جنہوں نے ہر دور میں اپنے حصے کو فوقیت دی۔ ذاتی مفادات کو مقدم رکھا یہی وجہ ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ سیٹ ہیں اپ سیٹ ہے تو صرف قومی کھیل کیونکہ اسے سیٹ کرنیکا ایجنڈا کسی کا نہیں تھا۔ اگر ہاکی ٹھیک کرنیکا ایجنڈا ہوتا تو وہ ٹھیک ہو جاتی۔
ہاکی والوں کا گذرا ہوا کل انکے حال کی کہانی سنا رہا ہے اور جو آج بویا جائیگا وہی کل کاٹنے کو ملے گا۔
جو ہم نے کل کاٹنا ہے آج اسکی سب سے بڑی ذمہ داری سیکرٹری جنرل اولمپئین شہباز احمد سینئر پر ہے۔ انہوں نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ ایک کھلاڑی کی طرح بحثیت منتظم بھی فرق ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہیں دوبارہ موقع ملا ہے۔ بحثیت کپتان و کھلاڑی تو وہ آج بھی زندہ ہیں اور یہ حیثیت انکے ساتھ جڑی رہے گی لیکن ایک منتظم کی حیثیت سے وہ فرق ڈالنے ملکی ہاکی میں موجود مسائل، روایتی گندی سیاست، اپنوں کو نوازنے کی روایت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ وقت کرے گا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ شہباز احمد سینئر اور انکی ٹیم جو بوئے گی وہی ہم کل کاٹیں گے!!!!!!

epaper

ای پیپر-دی نیشن