الیکشن 2018ءکون جیتے گااور کون ہارے گا
فرخ سعید خواجہ
الیکشن 2018ءکروانے کے لئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ میں نگران وزیر اعظم کا نام فائنل کرنے کے لئے اب تک ہونے والی ملاقاتیں بے نتیجہ رہی ہیں۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ باہم مشاورت سے نگران وزیراعظم کا چناﺅ کر لیا جائے بصورت دیگر آئینی طریقے کے مطابق الیکشن کمشن یہ فریضہ سرانجام دے گا۔ الیکشن کمشن نے انتخابی شیڈول پر غور شروع کر دیا ہے اور شنید ہے کہ اس مرتبہ 48 دن کی بجائے الیکشن کے لئے 55 دن د ئیے جائیں گے۔ 1970ءکے عام انتخابات کو جہاں ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کے تحت پہلا جنرل الیکشن ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہاں اس الیکشن کا صدر جنرل یحییٰ خان نے جنوری 1970ءمیں اعلان کیا تھا اور پولنگ برائے قومی اسمبلی 7 دسمبر اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے پولنگ 17 دسمبر 1970ءکو ہوئی تھی۔ یوں سال بھر انتخابی مہم چلی تھی۔ اس مرتبہ الیکشن محض دو ماہ کے فاصلے پر ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور عوام بروقت انتخابات کی خواہاں ہیں جبکہ اداروں کے بڑے لوگ جن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان شامل ہیں وہ تینوں بھی یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ الیکشن 2018ءبروقت ہوں گے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 جنرل نشستوں پر ہونے والا الیکشن مستقبل کی حکمران جماعت کا فیصلہ کرے گا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں مقبولیت کے لحاظ سے مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائدین نواز شریف، شہباز شریف پہلے نمبر پر ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور عمران خان دوسرے جبکہ پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری تیسرے نمبر پر ہیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس سیاسی جماعت کے سر پر ہاتھ رکھ دیتی ہے وہ جماعت الیکشن جیت جاتی ہے حالانکہ یہ خلاف حقیقت تصور ہے۔ 1970ءکے الیکشن میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف اکثریت حاصل کی تھی۔ 1988ءمیں اسٹیبلشمنٹ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔ بی بی بے نظیر بھٹو اور ان کی پپلز پارٹی کے خلاف اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنوایا جس پر وہ مرتے دم تک فخر کرتے رہے تاہم آئی جے آئی 1988ءمیں پیپلز پارٹی پر برتری حاصل نہیں کر سکا۔
1993ءمیں میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پہلی مرتبہ کھڑے ہوئے۔ اُن سے وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ لینے کی کوشش ہوئی لیکن نواز شریف نے مشہور زمانہ ٬٬ڈکٹیشن نہیں لوں گا،، والی تقریر کی۔ نواز شریف کے ڈٹ جانے کا نتیجہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک بڑے مہرے صدر غلام اسحاق خان کو بھی نواز شریف کے ساتھ گھر جانا پڑا۔ صدر اور وزیر اعظم دونوں نے اکٹھے استعفے دئیے۔ 1993ءکے الیکشن میں مسلم لیگ نواز کی بنیاد پڑی اور نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے بھرپور انداز میں الیکشن لڑا۔ یہ ٹھیک ہے کہ 1993ءمیں بی بی بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں تاہم نواز شریف قومی اسمبلی کی 46 نشستوں کے ساتھ قائد حزب اختلاف تھے۔
سو اب بھی جو کچھ سیاست میں چل رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کو برسر اقتدار نہیں آنے دے گی تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے چوٹی کے قائدین کے خلاف جاری انتقامی کارروائیوں کا اُن کے ووٹر پر اثر ہوا ہے اور و ہ ڈٹ کر نواز شریف کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔ بلاشبہ کسی لڑائی کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کا ورکر بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہیں آئے گا لیکن بات ووٹ تک جا پہنچی تو نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا ووٹر مسلم لیگ کے امیدواروں کو کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ پچھلے دس عام انتخابات کے تجربات کی روشنی میں ہمیں یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ الیکشن 2018ءمیں وفاداریاں بدلنے والے بڑے بڑے برج اُلٹ جائیں گے۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کا تعلق ہے و ہ بھی نواز شریف کے بیانیے اور شہباز شریف کے کاموں سے بری طرح خوفزدہ ہیں کہ عوام میں ان دونوں کی پذیرائی موجود ہے۔ لوگوں میں بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے تاہم دہشت گردی کے خاتمے، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے لئے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ٹھوس کام کے باعث مسلم لیگ (ن) کو دوسری سیاسی جماعتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ ٹرانسپورٹ ، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں پنجاب حکومت کی کارکردگی خاصی اچھی رہی ہے جبکہ انفراسٹرکچر کے معاملے میں پنجاب دیگر تمام صوبوں سے آگے ہے۔ گیلپ سروے میں بھی مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کی نمبر ون پارٹی قرار دیا گیا ہے جبکہ نواز شریف، شہباز شریف کو عوامی مقبولیت میں سب سے آگے بتایا گیا ہے جبکہ عمران خان دوسرے نمبر پر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ بھی قابل ذکر ہے جس میں ترقی کے اعتبار سے پنجاب کو پہلے نمبر پر قرار دیا گیا ہے دوسرے نمبر پر سندھ اور خیبر پختونخواہ تیسرے نمبر پر ہے۔ پنجاب کے علاقے جنوبی پنجاب کو پسماندہ قرار دینے پر تمام ن لیگ مخالف اپنا سارا زور صرف کرتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ ترقی کے اعتبار سے جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے ہے۔اگرچہ وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک اس رپورٹ کو 2005ءسے 2013ءکے عرصے پر محیط قرار دیا ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ خلاف حقیقت ہے۔