نگران وزیر اعظم کیلئے پارلیمنٹ پر انحصار مجبوری
نواز رضا
موجودہ قومی اسمبلی 31 مئی 2018 کو تحلیل ہو رہی ہے۔ کچھ آئینی ماہرین کا کا موقف ہے کہ 5جون 2013ء کو وزیر اعظم نے حلف اٹھایا تھا لہذا وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے پاس تحلیل ہونے بعد بھی نگران وزیر اعظم بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کا وقت موجود ہے ۔ موجودہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت کا قیام آئینی تقاضا ہے۔ سر دست حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ’’نگران وزیراعظم ‘‘کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا پائے۔ منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے درمیان5ویں ملاقات ہوئی جس میں نگران وزیراعظم کے نام پرپیش رفت نہیں ہوئی ۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیپلز پارٹی کی طرف سے دئیے گئے ناموں پر مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف سے مشاورت کرنے کے لئے مزید وقت مانگ لیا ہے ملاقات کا چھٹا دور (آج)جمعرات کو ہونے کا امکان ہے ۔ منگل کو وزیر آفس میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان 40منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں نگران وزیر اعظم کے نام پر ا س لئے اتفاق رائے نہ سکا کہ پیپلز پارٹی نے جو نام دئیے ہیں ریٹائرڈ جج اور بیورو کریٹس ہیں جب کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کسی ریٹائرڈ جج یا بیورو کریٹ کو نگران وزیر اعظم بنانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بظاہر نگران وزیر اعظم کا فیصلہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کر رہے ہیں لیکن اصل فیصلہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے کرنا ہے شاہد خاقان عباسی اور سید خورشید شاہ اپنی اپنی قیادت کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نواز شریف کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید کو درپیش ہے۔ اگر نگران وزیر اعظم کا نام آئینی مدت کے اندر فائنل نہ ہو سکا تو معاملہ8رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جائے گا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر پارلیمانی کمیٹی کو 4،4نام بھیجیں گے، پارلیمانی کمیٹی ان8ناموں میں سے نگران وزیراعظم انتخاب کرے گی، جب پارلیمانی کمیٹی بھی نگران وزیراعظم کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکی تو گیند الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کورٹ میں چلی جائے گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تیسری بار نواز شریف کو راضی کرنے کے لئے وقت مانگا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد پارلیمنٹ ہائوس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دلچسپ پیرائے میں کہا ہے کہ ’’ ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا لہذا وہ زیادہ پریشان نہ ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی طے کیا جائے ، وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہمارے دیئے گئے نام اچھے ہیں تاہم ان پرمزید غور کے لئے وقت مانگا ہے ۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت نے بھی اپنے دئیے گئے ناموں پراصرار نہیں کیا ہے ،حکومت کے نام بھی اچھے ہیں، بہر حال ہم نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ آپ اور آپ کے لیڈر نوازشریف نے کہا تھا جونام اپوزیشن لیڈر دے گا وہ مان لیں گے اب ہم حکومت کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں ، گیند اب حکومت کی کورٹ میں ہے، مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی کی جانب سے نگران وزیر اعظم کیلئے تجویز کئے گئے نام اب تک سامنے آئے ہیں ان میں پیپلزپارٹی نے نگران وزیر اعظم کیلئے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف ، سابق سیکرٹری خارجہ و امریکہ میں سابق سفیر جلیل عباس جیلانی اور سلیم عباس جیلانی کے نام تجویز کئے ہیں۔مسلم لیگ نے بھی تین نام تجویز کیے جن میں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی، سابق چیف جسٹس ناصرالملک اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام شامل ہیں، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرف سے جو نام پیش کئے گئے ہیں اس میں جسٹس (ر)تصدق جیلانی اور عشرت حسین کے ناموں پر تحریک انصاف اتفاق کرتی ہے ۔ جماعت اسلامی نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام تجویز کیا ہے سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے آئندہ ہفتے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان متوقع ہے جو کہ حکومت اپوزیشن کی مساوی نمائندگی پر مشتمل ہو گی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیراعظم کی نامزدگی پر اتفاق رائے نہ ہونے سے یہ معاملہ سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔
اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد کا طبل نہیں بجا لیکن ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ’’غیر اعلانیہ‘‘ انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف رمضان المبارک میں بھی ملک گیر انتخابی مہم میں مصروف ہیں بڑے بڑے جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ابھی سے اقتدار میں آنے کیپہلے100 دن کا پروگرام دے دیا ہے تحریک انصاف ابھی تک اپنا ہوم ورک بھی مکمل نہیں کر پائی تھی کہ اس کی قیادت نے آئندہ وزیراعظم کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے ہیں ۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کے جاری کردہ پلان میں اس قدر خوش کن دعوے کئے گئے ہیں کہ سیاسی حلقوں میں ان کا تمسخر اڑا یا جا رہا ہے ۔ کوئی ماہر معیشت عمران خان کے دعوئوں کی تائید کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ یہ تمام دعوے غیر حقیت پسندانہ ہیں ۔ عام انتخابات سے قبل انتخابی سروے بھی منظر عام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ گیلپ پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی جن کا شمار ملک کے مستند تجزیہ کار وں میں ہوتا ہے۔ ان کے ماضی میں جاری ہونے والے تجزیوں کو سیاسی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ دو ماہ قبل انھوں نے پورے ملک میں جو سروے کرایا ہے اس میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک 17 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 25 فیصد ہو گیا ہے جبکہ اسی مدت میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک 33 سے بڑھ کر 38 فیصد ہو گیا۔ اس کا مطلب ہوا پچھلے ایک سال کے دوران مسلم لیگ(ن) کے ووٹ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا میاں نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کے نعرے کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی مسلم لیگ ن کے مقابلے میں 13 فیصد پیچھے ہے۔ 2013 ء کے انتخابات سے پہلے عمران خان کی ذاتی مقبولیت کافی زیادہ تھی لیکن اس تناسب سے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں ملے تھے کیونکہ مقبولیت اور الیکٹیبلٹی میں فرق ہوتا ہے۔ اس وقت حیران کن بات یہ ہے ’’جبر‘‘ کے ماحول میں بھی نواز شریف اور شہباز شریف عوام میں یکساں مقبول ہیں۔ دونوں کی مقبولیت کا گراف 50 فیصد ہے جبکہ عمران خان اب بھی ان سے پیچھے 45 فیصد پر ہیں۔ نواز شریف کے حالیہ بیانات سے ان کی مقبولیت کے گراف کا فائدہ کسی اور کی بجائے شہباز شریف کو ہی ملے گا۔ گیلپ سروے کے مطابق جو لوگ سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑ نے کا ارادہ رکھتے ہیں یا انہیں ایک پارٹی میں بھجوایا جا رہاہے انہوں نے دراصل گھاٹے کا سودا کیا ہے ۔ چیئرمین گیلپ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا گراف علی الترتیب 38 اور 25 فیصد کے پاس ہی رہے گا۔ 38 میں دو چار کی کمی آ سکتی ہے یا25 میں دو چار کا اضافہ ہو سکتا ہے لیکن جب تک تمام جماعتیں مرکز کی حد تک مسلم لیگ ن کے خلاف اتحاد نہیں بناتیں، مسلم لیگ ن کو ان پر سبقت حاصل رہے گی۔ اگر پنجاب میں کوئی بڑا اتحاد نہ بن سکا تو پھر بھی مسلم لیگ ن ہی حکومت بنائے گی۔ پنجاب میں عمران خان کا سویپ کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا کہناہے کہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ آسمان سے زمین پر آ گیا ہے۔ مذہبی جماعتیں عام انتخابات میں کوئی چونکا دینے والے نتائج نہیں حاصل کر پائیں گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے’’ ووٹنگ ٹرینڈ ‘‘میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پورے ملک میں 2018 ء کے انتخابی نتائج میں کسی بڑے اپ سیٹ کا امکان نہیں۔ 2013ء کا رجحان ہی 2018 میں نظر آئے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے 100 روز کی جن ترجیحات کا اعلان کیا ہے اسے پاکستان پیپلز پارٹی نے شیخ چلی کی کہانیاں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ2013 ء میں بھی عمران خان نے 90دن کا ایجنڈا دیا تھا جو 5سال میں بھی پورا نہیں ہوسکا ، عمران خان نے 50دن میں 100لوٹے اکٹھے کر لئے اب ان کے پاس ہر سائز ، رنگ کا لوٹا اور ڈرم موجود ہے، عمران خان کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیںاس لئے 100دن کا ایجنڈا دے کر عمران خان اپنی خواہشات کا مقبرہ تعمیر کر رہے ہیں،ہمارے پاس بھٹو اور بینظیر ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں ہیںکے پی کے عوام نے 2013 ء میں عمران خان پر یقین کیا تھا جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں،بین الاقوامی اداروں سے قرضے نہ لینے کا اعلان کرنے والوں نے 5سال کے دوران صرف ایک منصوبے کیلئے 41.88بلین روپے کا قرضہ لے لیا ،پی ٹی آئی کی تبدیلی صرف سوشل میڈیا اور فیس بک پر ہی نظر آتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، عمران خان نے اپنے ایجنڈے میںایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے جس کیلئے 24کھرب روپے درکار ہوں گے جبکہ پاکستان کا مجموعی بجٹ 8کھرب کا ہے۔ جب کہ وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ سیاست میں شعبدہ بازوں کی کمی نہیں، تحریک انصاف کے 100 روزہ پلان پر ہنسی آئی، نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، عمران خان بتائیں 90 دن کے منشور پر کیا عملدرآمد کرایا۔ مسئلہ اگلے 100دن نہیں، پچھلے ایک ہزار 825 دن کا ہے۔