فیصل آباد ڈویژن میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیوں کا پس منظر
احمد کمال نظامی
ان دنوں سیاست میں لوٹوں کا بہت زیادہ چرچا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ضلع بہاولنگر کے تحصیل ہیڈکوارٹر چشتیاں میں مسلم لیگ(ن) کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی چھوڑنے والوں کے حوالے سے کہا ہے کہ پارٹی تبدیل کرنے والوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم جس کو پارٹی ٹکٹ دیں گے عوام اس کو ہی ووٹ دیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کو سب سے زیادہ نقصان جنوبی پنجاب سے ہی پہنچا ہے اور میاں محمد نوازشریف پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ جو چلے گئے یا جا رہے ہیں وہ کبھی بھی ان کے نہیں تھے۔ یہی بات سچ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے زیادہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی الیکشن 013ءمیں آزاد امیدواروں کے طور پر کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ(ن) کو محض اس لئے جوائن کیا تھا کہ پارٹیاں تبدیل کرنے والوں کی آخری پارٹی وہی ہوتی ہے جو الیکشن کے بعد اقتدار میں آ رہی ہوتی ہے۔ ان کی چھٹی حس ان کو بتا دیتی ہے کہ آئندہ اقتدار کے گھوڑے پر کون سوار ہو رہا ہے اور ان کی اس چھٹی حس کا مواصلاتی رابطہ ملک میں اقتدار کی بساط بچھانے والوں سے ہوتا ہے۔ انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ اقتدار کے گھوڑے کا سوار کون ہو گا۔ تحریک انصاف کو نجانے اتنا یقین کیوں ہے کہ آئندہ ملک کا اقتدار اس کے پاس ہو گا کہ اس نے حکومت کے حلف اٹھاتے ہی پہلے 100دنوں کا اپنا پروگرام بھی بتا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو چھوڑ کر آنے والوں نے عمران خان کے کان میں بھی یہ بات ڈال دی ہے کہ ایمپائر کی انگلی نے مسلم لیگ(ن) کو الیکشن 2018ءمیں ”آ¶ٹ“ قرار دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ 100 دن کا پروگرام پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پلان نہیں پری پول دھاندلی کا اشارہ ہے۔ پی ٹی آئی الیکشن جیت بھی گئی تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ ان دنوں ایئرمارشل اصغر کیس کا وہ کیس بھی سپریم کورٹ اوپن کر چکی ہے جس میں میاں محمد نوازشریف، جاوید ہاشمی، بیگم عابدہ حسین اور متعدد دوسرے سیاست دانوں میں ملٹری کے ایک مقتدر ادارے نے 1990ءکے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے زیادہ تر امیدواروں کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔ میاں محمد نوازشریف نے اپنی سیاسی زندگی کی آنکھ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں کھولی تھی لیکن 1990ءمیں انہیں آئی جے آئی کا سربراہ بننے اور پھر بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی کے امیدواروں کو رقوم تقسیم ہونے کا تجربہ پہلی مرتبہ 1990ءمیں ہی ہوا تھا۔ فوج کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے رقوم تقسیم کرنے اور الیکشن 1990ءمیں اپنی مرضی کی حکومت حاصل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے اور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجہ میں میاں محمد نوازشریف پہلی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ چشتیاں کے جلسہ میں مریم نواز کو یہ بھی کہنا پڑا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور میاں محمد نوازشریف کے دیوانوں کو صرف ”شیر“ کے انتخابی نشان پر مہریں ہی نہیں لگانی ہیں بلکہ اپنے ”ووٹ“ کا دفاع بھی کرنا ہے۔ عوام کا کام ووٹ دینا ہے۔ ووٹ کی پرچی پر انگوٹھے کا نشان لگانا ہے، اس کے آگے ووٹ کدھر جاتا ہے عوام اس لڑائی کا حصہ کبھی نہیں بنے اور تحریک انصاف کے سربراہ کے 2014ءکے دھرنے سو فیصد بلاجواز بھی نہیں تھے۔ عمران خان نے اس وقت بھی اس الزام کو دہرایا ہے کہ 2013ءکے انتخابات کے نتائج تبدیل کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ سیاسی لیڈر کے طور پر اپنی موجودہ مقبولیت سے الیکشن 2013ءسے پہلے زیادہ مقبول تھے۔ یہ باتیں مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت کا حوصلہ کم کرنے کے لئے نہیں کہیں کیونکہ جب مریم نواز اپنے ووٹرز کو یہ کہتی ہیں کہ اپنے لگائے گئے انگوٹھوں کی حفاطت بھی کرنا تو اس کا واضح طور پر یہ مطلب ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ سابق وزیراعظم کے بمبئی حملوں سے متعلق بیان اور احتساب عدالت میں ان کا دفعہ 342 کا بیان ہو جانے کے بعد اب سب کو معلوم ہے اور جو لوگ پارٹیاں چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کو جو کچھ بھی کہہ لیجئے انہیں ملک کے آئندہ اقتدار کے نقشے کی مکمل خبر ہے۔ جنوبی پنجاب کے امیدوار، آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑتے ہیں اور جیت کر اقتدار میں آنے والوں کے ساتھی بن جاتے ہیں اور یہی کام بہت حد تک جھنگ سے آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن جیت کر برسراقتدار پارٹی کا حصہ بن جانے والوں کا بھی ہے۔ میاںمحمد نوازشریف نے درست کہا ہے کہ جو چلے گئے وہ کبھی ہمارے نہیں تھے۔ جھنگ سے غلام بی بی بھروانہ نے ختم نبوت کے قانون کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے پر پیرسیالوی کے دھوبی گھاٹ فیصل آباد کے جلسے میں مسلم لیگ(ن) کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ تحریک انصاف میں ہفتہ عشرہ پہلے ہی شامل ہوئی ہیں سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر جیتات ھا۔ اب ان کا حلقہ نئی حلقہ بندی میں این اے 99 چنیوٹ اور این اے 114 جھنگ میں تقسیم ہو گیا ہے۔ این اے 114 میں انکے ساتھ ہی تحریک انصاف میں شامل ہونے والے صاحبزادہ محبوب سلطان نے بھی تحریک انصاف کو پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست دے رکھی ہے۔ انہیں یا تو این اے 99 میں پارٹی ٹکٹ کے لئے ضلع چنیوٹ سے الیکشن لڑنا ہو گا یا این اے 114 میں صاحبزادہ محبوب سلطان اور فیصل صالح حیات کے مقابلے میں اترنا ہو گا۔ فیصل صالح حیات کے متعلق خبر ہے کہ وہ پیپلزپارٹی میںمراجعت اختیار کرنے والے ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین کا بیٹا سید عابد امام بھی این اے 114 پر امیدوار ہو گا۔ صائمہ اختر بھروانہ بھی این اے 116 سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی بجائے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لرنا چاہتی ہیں کیونکہ انہیں میاں محمد نوازشریف کے بیانیہ سے شدید اختلاف ہے۔ ممکن ہے مسلم لیگ(ن) کو چھوڑ کر وہ بھی تحریک انصاف کی طرف چلی جائیں مگر سابق رکن اسمبلی اور ماضی کے وزیرمملکت امور خارجہ نذیر سلطان نے بھی اپنے بھائی صاحبزادہ محبوب سلطان کے ساتھ ہی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان کا ماضی بھی کچھ یہی ہے کہ انہوں نے 1970ءکا الیکشن جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر جیتا تھا اور پھر شاہ احمد نورانی کو چھوڑ کر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جا بیٹھے تھے۔ وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) سے ہوتے ہوئے مسلم لیگ(ن) میں آئے تھے اور الیکشن 2013ءمیں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر آزاد ایدوار صائمہ اختر بھروانہ سے الیکشن ہار گئے تھے۔ نذیر سلطان نے تو اب سیاست چھوڑ دی ہے البتہ ان کے بیے صاحبزادہ امیر سلطان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صائمہ اختر بھروانہ کا مقابلہ کریں گے۔ صائمہ اختر بھروانہ جیت گئیں تو وہ یقینا انتخابات سے 100 دن پہلے ہی اپنے اقتدار کے پہلے سو دنوں کا پروگرام دینے والوں کے سیاسی کیمپ کا حصہ بن جائیں گی۔ ان کو سیاسی لوٹوں کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد جٹ نے بھی جھنگ کی غلام بی بی بھروانہ کے ساتھ پیر سیالوی کے جلسہ فیصل آباد میں ختم نبوت کے مسئلہ پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن وہ تحریک انصاف میں بہت بعد میں شامل ہوئے۔ ان کو رانا ثناءاللہ خاں نے جو این اے 106 میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں ابھی کھول کر ”لوٹا“ کہنا شروع نہیں کیا کیونکہ اس حلقہ میں ڈاکر نثار احمد جٹ کو پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے رانا آفتاب احمد خاں کا چیلنج درپیش ہے کیونکہ رانا آفتاب احمد پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہ اسی حلقہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ نے بھی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پیپلزارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے کیا تھا لیکن انہوں نے بعدازاں مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد میاں شہبازشریف سے قربت حاصل کررکھی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے سابق سپیکر چوہدری محمد افضل ساہی نے اسی لئے رانا ثناءاللہ کو یہ طعنہ دیا ہے کہ وہ بہت بڑے لوٹے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے سابق سپیکر چوہدری محمد افضل ساہی نے اپنے بھائی قومی اسمبلی کے رکن کرنل(ر) غلام رسول ساہی کے ساتھ بنی گالا جا کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو رانا ثناءاللہ خاں نے کہا کہ ساہی برادران نے ہمیشہ ”لوٹا“ سیاست کی ہے۔ ساہی برادران نے جب پانچ سال پہلے جاتی امراءمیں جا کر میاں محمد نوازشریف کو ہمیشہ ان کے وفادار رہنے کا یقین دلایا تھا وہ اس وقت بھی ”چوہدری برادران“ کے زیادہ سیاسی وفادار تھے۔ انہیں اور مسلم لیگ(ق) پنجاب کے سیکرٹری جنرل ظہیرالدین خاں کو یہ توقع تھی کہ مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف میں ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ ہو جائے گا مگر یہ فیصلہ بروقت نہیں ہوا جس پر چوہدری ظہیرالدین خاں کو مسلم لیگ(ق) اور ساہی برادران کو مسلم لیگ(ن) کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونا پڑا۔ چوہدری ظہیرالدین خاں کے ساتھ ہی این اے 102 کے الیکشن 2008ءکے فاتح نواب شیر وسیر بھی تحریک انصاف کا حصہ بن گئے اور اب ان دونوں میں پارٹی ٹکٹ کے حصول کی کشمکش ہے جبکہ ان کے مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے حریف طلال چوہدری کو ایک طرف سپریم کورٹ سے توہین عدالت کیس کا سامنا ہے ۔