• news

احسن اقبال کی ایوان میں آمد پر ارکان کا اظہار یکجہتی

قومی اسمبلی کا اجلاس اس لحاظ سے ہنگامہ خیز رہا جہاں ایک طرف قائد ایوان سید خورشیدشاہ اور ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیاں ’’ٹاکرا‘‘ ہوا وہاں ایم کیو ایم نے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کے بیان کے خلاف ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ ان کے بیان کے خلاف احتجاج کیا اور مرادعلی شاہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے بات کرنے کیلئے مائیک نہ ملنے پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سے کورم کی نشاندہی کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وقفہ سوالات کے دوران سوال کرنے والے ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے جس کے باعث وقفہ سوالات جلد ہی سپیکر نے نمٹا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی شیریں مزاری نے ظنز کرتے ہوئے کہا کہ سوال کرنے والے ہیں اور نہ ہی جواب دینے والے، سپیکر نے کہا کہ یہ اب تک کا سب سے مختصر وقفہ سوالات تھا۔ ایک اور موقع پر رمیش لال نے کہا کہ ہما رے قائدین ایوان میں موجود نہیں ہیں، جس پر سپیکر نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ اعجاز جاکھرانی کی با ت کر رہے ہیں‘ وہ تو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ بعدازاں رمیش لال نے کورم کی نشاندہی کر دی جس کے باعث تقریباً ایک گھنٹہ کیلئے اجلاس ملتوی رہا۔ اجلاس شروع ہونے کے بعد بھی نکتہ اعتراض پر بات کرنے کا موقع نہ ملنے پر یوسف تالپور سمیت دیگر ارکان کورم کی نشاندہی کرنے کا عندیہ دیتے رہے‘ جس پر ڈپٹی سپیکر مجبوراً ان ارکان کو بات کرنے کا موقع فراہم کرتے رہے اور یوں اجلاس کی کارروائی آگے بڑھتی رہی تاہم بعدازاں کورم کی نشاندہی سے بچنے کیلئے ایجنڈے کی کارروائی پوری کئے بغیر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال حملے کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی میں آئے تو ارکان اسمبلی نے ان کے پاس جاکر ان کی صحت دریافت کی۔ ان کی خیریت دریافت کرنے کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان ان کے پاس گئے اور ان کی خیریت دریافت کی، خیریت دریافت کرنے والوں میں صا حبزادہ طارق اللہ، رشید گوڈیل، شیر اکبرخان، نعیمہ کشور، عالیہ کامران ، ماروی میمن، اعجاز جاکھرانی اور نفیسہ شاہ سمیت دیگر ارکان اسمبلی شامل تھے۔ احسن اقبال نے اظہار یکجہتی اور دعا کرنے پر تمام ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کے بیانیہ کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خورشیدشاہ نے پانی کے مسئلہ پر دھمکیاں دینے لگے ہیں اور کہا ہے کہ اگر سندھ کو پانی نہ دیا گیا تو سندھ کے بارڈر کو بند کر دیں گے۔ آج سندھ کے لوگ پیاسے مر رہے ہیں، حکومت کے پاس وزیروں کی فوج ہونے کے باوجود ایوان میں ہماری بات سننے والا کوئی نہیں۔ قبرستان کی خاموشی اور حکومت کی خاموشی ایک جیسی ہے۔ حکومت دوتہائی اکثریت کے باوجود کورم پورا نہیں کرسکی،، نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ہم کسی اور کے حصے کا پانی نہیں نہیں مانگ رہے، صرف اپنے حصے کا پانی مانگ رہے ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سیاست میں برداشت کا مادہ ختم ہوگیا ہے۔ میڈیا شو میں کوئی پانی پھینک دیتا ہے کوئی تھپڑ مار دیتا ہے، احسن اقبال کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، خواتین کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ میں 72خواتین ہیں جن کا احترام ضروری ہے۔

ای پیپر-دی نیشن