میاں اظہر فیملی نے شریف فیملی سے انتقام کیوں لیا
بات اگرچہ اتنی سادہ نہیں کہ ایک شخص یا اس کے خاندان کا کوئی ایک فرد شریف فیملی سے انتقام کی ٹھان لے لیکن یہ بات دو روز پیشتر میاںنواز شریف نے خود کی ہے اور میاں اظہر کے کسی بھانجے کو مطعون کیا ہے کہ وہ شریف فیملی کے خلاف ادھار چکانے میںمصروف ہے۔ یہ باتیں میڈیا میں کثرت سے زیر بحث آتی رہی ہیں ، وکلا نے بھی ایسے بیانات دیئے خاص طور پر جب جے آئی ٹی تشکیل پائی تھی تومیاں اظہر کے کسی بھانجے کی اس میں شمو لیت پراعتراضات سا منے آئے اور بعض حلقوں نے اس کا جواب بھی یہ دیا کہ اس شخص کی شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ و ہ وائٹ کالر کرائم کی تفتیش کاماہر ہے مگر وہ ایساہی ماہر تھا تو آج تک پبلک کو اس کا کوئی اور کارنامہ نہیں بتایا گیا کہ ا س نے کس بڑے کیس میں ہاتھ ڈالا اور اس سے مال حرام نکلوایا،۔ ایسے شخص کو تو ایان علی کی تفتیش پر ضرور مامور کرنا چاہئے تھا مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ایان علی کی تفتیش پر جو شخص مامور کیا گیا ، اسے قتل کر دیا گیا، ایان علی وکٹری کا نشان بنا کر معاشرے کا منہ چڑارہی ہے۔
جے آ ٹی ٹی بنانا کسی نہ کسی کی صوابدید ہوتی ہو گی ، میں قانون کا ماہر نہیں لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے شہر قصور میں ایک بھیانک واردات ہوئی اورا سکی تفتیش کے لئے ایک جے آئی ٹی بنی تو معصوم زینب کے باپ نے جے آئی ٹی کے سربراہ پر اعتراض کیا ، اس کے اعتراض کے پیش نظر اس سربراہ کو ہٹا کر کسی ودسرے کو یہ کام سونپ دیا گیا ، یہ الگ بات ہے کہ یہ جے آئی ٹی بھی معصوم زینب کے مجرم کو ابھی تک کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکی۔ ایسی جے آئی ٹی کا کیا فائدہ جس میں قصور کی بھیانک واردات کاملزم ابھی تک سزا سے بچا ہوا ہو یاکراچی کے ڈاکٹر عاصم حسین کابدنام زمانہ کیس التوا کاشکار ہو گیا۔
شریف فیملی کے خلاف کیس میں میاں اظہر فیملی کے ممبر پر اعتراض ہوا مگر اسے جے آئی ٹی سے نہیں نکالاگیا جبکہ قصور میں بد نصیب زینب کے والد کے اعتراض پر جے آئی ٹی کے سربراہ تک کو نکال باہر پھینکا گیا۔ یہ مثال کسی بات کی تو چغلی کھاتی ہے، آپ اپنے جج پر اعتراض کر دیں تو مقدمہ کسی دوسرے جج کو دے دیا جاتا ہے مگر شریف فیملی کے کیس میں ایک تفتیشی ممبر کو بدلنے کی کسی نے زحمت نہیں کی۔
میاں اظہر اور شریف خاندانوں میں دوستی تھی تو مثالی تھی اور اب دشمنی ہے تو مثالی بنتی جا رہی ہے۔بھٹو نے اتفاق فونڈری کو قومیا لیا تو میاںاظہر کے والد نے اپنی بھٹی میاں شریف کو دان کر دی کہ آپ یہاں بیٹھ کر کام چلائیں۔کہا جاتا ہے کہ شریف فیملی نے اس احسان کا بدلہ دو مرتبہ چکایا ، پہلے تو میاں اظہر کو لاہور کا لارڈ میئر بنایاا ور پھر پاکستان کسے سب سے بڑے صوبے کا گورنر بنایا۔
میاں اظہر خاندان پر نواز شریف نے انعام و اکرام کا سلسلہ جاری رکھاا ور انہیں لاہور کے نواح میں ایک شوگر مل نجکاری کے پردے میں دے دی گئی۔ کارگل کی جنگ کی تکلیف بہت ساروں کو تھی اکیلے نوازشریف کو نہیں۔ میاں اظہر فیملی کے چینی کے ٹرک بھی بھارت جانے کے لئے واہگہ پر رک گئے تھے۔کارگل کے خلاف بولنے والے مجھے بتائیں کہ بھارت کشمیر پر قبضہ کر لے۔ پینسٹھ میں پاکستان کے بارڈر پر جارحانہ حملہ کر دے اور ہزاروںمربع میل کا علاقہ ہتھیا لے ۔ اکہتر میں مشرقی پاکستان کو جارحیت کر کے الگ ملک بنوا دے اور چوراسی میں چوروں کی طرح سیاچین پر قبضہ جما لے تو یہ سب جائز اور برحق اور اگر پاک فوج نناوے میں کارگل کی ایک پہاڑی پر قبضہ کر لے تو یہ گردن زدنی ٹھہرے، آخر کوئی منطق بھی ہوتی، کوئی دلیل بھی ہوتی ہے اور کچھ نہ ہو تو حیاا ور شرم بھی تو ہونی چاہئے،مگر ہم نے سب کچھ بالائے طاق رکھا اور بھارت کو چینی کے ٹرک سپلائی کرنے کا سودا ہمارے سر میں سمایا ہوا تھا، اس نیکی میں شریف فیملی کے ساتھ کیا میاں اظہر فیملی شریک نہ تھی۔کیا یہ ایک وائٹ کالر کرائم نہ تھا جس کاسراغ لگانے کے لئے بھی کوئی جے آئی ٹی بننی چاہئے تھی۔
نناوے میں مشرف نے مارشل لا نافذ کیا ، شریف خاندان کو سیف ہائوسوں اور قلعوں میں ڈالا اور پھر جلا وطن کر دیا تو میاں اظہر اس ٹولے کے سربراہ تھے جو اپنے آپ کو ہم خیال کہتا تھا۔ اس ہم خیال گروپ کی نتھ انٹیلی جنس افسروں کے ہاتھ میں تھی اور یہ لوگ چھپ چھپا کر صلاح مشورے کے لئے اکٹھے ہوتے تو مال روڈ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کمرہ بک کرواتے مگر میڈیا ان کی ٹوہ پھر بھی لگا لیتا۔صد حیف کہ مشرف کی انٹیلی جنس مشینری بھی میاں اظہر کی قیادت اور سیادت کو کسی سے تسلیم نہ کروا سکی ا ور چودھری خاندان نے ایف سی کالج کے ایک پرانے ساتھی کے تعاون سے ہم خیال گروپ پر شب خون مارا اور اپنی ق لیگ منظم کر کے ملک کی حکمرانی میں شراکت دار بن گئے، میاں اظہر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ مگر آج جب تقدیر کا پہیہ نواز شریف کے خلاف چل رہا ہے تو وائٹ کالر کرائم کے ماہر صرف یہ دور کی کوڑی لائے کہ نواز شریف نے بیٹے سے جو تنخواہ نہیں لی، اسے کھاتے میں ظاہر نہیں کیا، اسے کہتے ہیں رائی کا پہاڑ بنا نا اور اس پہاڑ تلے نواز شریف کی وزرت عظمی کو کچل دیا گیا، تاریخ میں اس نکتے پر بحثیں جاری رہیں گی اور جب کبھی میاں اظہر کے ٹیلنٹڈ بھانجے ریٹائر ہوں گے تو میں میاں اظہر سے ضرور کہوں گا کہ وہ مجھے ان سے ملاقات کا شرف بخشیں اور میں ان سے جان سکوں کہ انہوںنے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اور کیا کمالات دکھائے۔ سوائے ا سکے کہ ایک بار تو ملک کی سیاست میں بھونچال برپا ہو گیا ہے۔ ابھی شریف فیملی کی قسمت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔دیکھئے پردہ غیب سے کیا ظہور پذیر ہوتا ہے۔ قید جرمانے،۔ یہ نواز شریف کے لئے کچھ نئی سزا نہ ہو گی۔ رہے میاں شریف جو حدیبیہ کو چلاتے تھے اور جن کی وفات پر یہ کیس بند ہو گیا تھا، کیا ان کی قبر کے خلاف کسی سزا کاا علان کیا جاتا ہے ، ایسا بھی ہو گیا تو کوئی انہونی نہیں ہو گی،تاریخ میں قبروں کا ٹرائل ہوا اور انہیں سز ابھی ملی۔ مگر تاریخ میں ایک جملہ ہے جسے اس کے صفحات سے کھرچا نہیں جا سکے گا۔ اور وہ ہے۔
You too Brutus!