گندم کی خریداری استحصال کے مراکز بن چکے ہیں
کسانوں اور کاشت کاروں پر کیا گزرتی ہے
چھوٹے کاشتکار اور کسان تو اس استحصال ظلم اور جبر کو مقدر کا لکھا قرار دے کر خاموش ہو جاتے ہیں
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
بعض مسائل ایسے ہیں کہ حکومت اور انتظامی مشینری کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ان مسائل سے واسطہ پڑے گا۔ گندم اور کپاس کی خریداری کے موقع پر کسانوں اور کاشت کاروں کا جو بدترین استحصال ہوتاہے اس کی روایت اس قدر پرانی ہے کہ بلاامتیاز جمہوری اور مارشل لائی حکومت ہر دور میں ہوتا چلا آ رہا ہے اور اصلاح احوال کے تمام تر حکومتی دعوے نقش آب ثابت ہوئے۔ چھوٹے کاشتکار اور کسان تو اس استحصال ظلم اور جبر کو مقدر کا لکھا قرار دے کر خاموش ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ مقدر کا لکھا نہیں ہوتا بلکہ کاشت کار اور کسان اپنے حقوق کا مظاہرہ کرنے اور اپنے حق اور حقوق کو حاصل کرنے کی بجائے انہیں اندھی عقیدت کے مزارات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کاشتکار اور کسان کا ناخواندہ ہونا تھا جبکہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے انہی کسانوں اور کاشت کاروں کو سبق دیتے ہوئے کہا تھا
’’جس سے دہقان کو نہ ہو روزی میسر
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو‘‘
پھر پنجاب کی یہ قدیمی روایت ہے کہ گندم کی کٹائی کے موقع پر ہی نئے رشتے ناطے کرتے ہیں کیونکہ سال بھر کی محنت و مشقت کے بعد انہیں اپنے گندم سے جو آمدن ہوتی ہے وہ آمدن ہی نئے رشتے ناطوں کا باعث ہوتی ہے۔ پاکستان میں غالباً پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ گندم کی نئی فصل کی کٹائی ایسے موسم اور ماحول میں ہو رہی ہے جبکہ قومی انتخابات کا بغل بجنے والا ہے اور ایک حکومت رخصت ہو رہی ہے اور دوسری ایوان اقتدارمیں داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ بظاہر توایسا دکھائی دیتا ہے کہ باری باری ایوان اقتدار میں داخل ہونے کی رسم اب ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے والا معاملہ ہے۔ یہ بات تو جملہ متعرفہ کے طور پر آ گئی چونکہ انتخابات سر پر ہیں اور پنجاب میں حکمرانوں کی تمام تر توجہ انتخابات پر موکز ہے۔ جیساکہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں حکمرانوں کی کامیابی کا راز پولیس اور پٹواری کلچر کا مرہون منت ہے لہٰذا حکمرانوں نے گندم کی خریداری کے موقع پر پولیس، محکمہ مال، محکمہ خوراک کو متحرک ہی نہیں کیا بلکہ ٹارگٹ بھی دے دیا ہے۔ بھلا گندم ی خریداری سے پولیس کا واسطہ لیکن پولیس گندم کی خریداری کے موقع پر اپنے وجود کا بھرپور انداز میں اظہار کر رہی ہے۔ فیصل آباد پولیس کے ریجنل آفیسر بلال صدیق کمیانہ نے فیصل آباد ریجن کے گندم خریداری مراکز کا دورہ کرتے ہوئے جہاں سیکورٹی کے حوالہ سے گندم سہولت کار مراکز کا دورہ کیا۔ نئی اصطلاع کے مطابق اب گندم خریداری مراکز کو سہولت مرکز کا نام دیا گیا اور اپنے دورہ کے دوران آر پی او بلال صدیق کمیانہ نے محکمہ خوراک، محکمہ پولیس اور محکمکہ مال کے اہل کاروں اور افسروں سے کہا کہ گندم کی خریداری میرٹ اور شفافیت کی پالیسی پر عمل کرنے کی بجائے اورحکومت کے مقررکردہ نرخ پر ہی گندم خریدی جائے اور کسی قسم کے دباؤ اور سفارش کو خاطر میں نہ لایا جائے اور باردانہ کی بروقت ترسیل کی جائے جبکہ کاشت کاروں اور کسانوں کی مختلف انجمن کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ بار بار کے مطالبہ کے باوجود ابھی تک 75فیصد چھوٹے کاشت کار اور کسان باردانہ سے محروم ہیں اورحکومتی مشینری کی تمام تر توجہ بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی طرف ہے اور انہیں نیا باردانہ ان کی دہلیز پر فراہم کیا جا رہا ہے،چھوٹا کاشت کار اپنی قسمت کا ماتم کرتے دکھائی دیتا ہے۔ اس ستم بالائے ستم کہ فیصل آباد میں بعض گندم کے اہم مراکز جن میں جڑانوالہ، تاندلیانوالہ، گـڑھ موڑ، احمد پور سیال، پیر محل مرکز جامع آباد، چنیوٹ جیسے مراکز ہیں۔ گزشتہ دو برسوں سے فرشی کنڈوں کی سہولت ہی موجود نہیں اور ان فرشی کنڈوں اور ان کی تنصیب کے لئے محکمہ خوراک کو حکومت کی طرف سے چار کروڑ روپے سے زیادہ کے جو فنڈز فراہم کئے گئے وہ کہاں خرچ ہوئے یہ تو کرپشن کی ایک معمولی سی جھلک ہے جبکہ بعض ذرائع تو اس امر کا انکشاف کر رہے ہیں کہ محکمہ خوراک میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے جس پر ملی بھگت سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ گندم خریداری مرکز میں فرشی کنڈوں کی عدم موجودگی کے باعث چھوٹا کاشت کار اور کسان شدید ذہنی کشمکش اور اذیت کا شکار ہے کیونکہ اسے اپنی فصل کا وزن کرانے کے لئے پرائیویٹ سطح پر آڑھتیوں نے جو کنڈے نصب کئے ہوئے ہیں ان سے وزن کرانے پر مجبور ہیں اس وقت تو چھوٹے کاشت کار اور کسان کی حالت دیدنی ہوتی ہے جب پرائیویٹ کنڈے سے وزن کرانے کے بعد وزنی چٹ پیش کرتا ہے تو اس کے پاؤں تلے زمین یہ کہہ کر نکال دی جاتی ہے کہ مذکورہ کنڈا تو ہمارے محکمہ سے رجسٹرڈ ہی نہیں کسی رجسٹرڈ کنڈے سے وزن کرا کر لائیں جبکہ محکمہ خوراک کا یہ دعویٰ ہے کہ باردانہ کی تقسیم کا 43فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے اور فیصل آباد ڈویژن میں 22لاکھ 98ہزار 250بوری باردانہ تقسیم ہو چکا ہے جبکہ کسان بورڈ جو کاشت کاروں اور کسانوں کی نمائندہ تنظیم ہے وہ اس دعویٰ کی یوں نفی کرتی ہے کہ ملکی خوراک کے کرپٹ اور بددیانت افسروں اور عملہ نے اپنے من پسند آڑھتیوں او رگندم مافیا سے ملی بھگت کر کے باردانہ کسانوں کی بجائے انہیں تقسیم کر دیا ہے۔ ان آڑھتیوں اور گندم مافیاکے کارندے باردانہ کا دانہ ڈال کر سستے داموں گندم خرید رہے ہیں اور موقع پر ہی نقد ادائیگی کر رہے ہیں۔ ان کا سلوگن ہے کہ یہ سودا نقد بہ نقدی ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ لیکن حکومت سوئی ہوئی ہے۔ فیصل آباد کے ڈویژنل کمشنر مومن آغا اور ڈپٹی کمشنر سلمان غنی کا کہنا ہے کہ گندم کی خریداری مہم کی حکومت پنجاب کی ہدایات کی روشنی میں مکمل مانیٹرنگ کا عمل جاری ہے تاکہ گندم خریداری مراکز میں کاشت کاروں اور کسانوں کو سہولیات کی فراہمی میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہونے پائے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گندم خریداری مراکز پر وہ اچانک چھاپے بھی ماریں گے اور موقع پر موجود کاشت کاروں اور کسانوں سے صورت حال پر بات چیت کرتے ہوئے مسائل کا جائزہ بھی لیں گے۔ ڈپٹی کمشنر فیصل آباد نے گندم خریداری کے اختتام پر متعلقہ محکمہ خوراک، محکمہ مال اور محکمہ پولیس کو ہدایت جاری کی کہ کاشتکاروں اور کسانوں کو خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر سہولتیں فراہم کریں اور معمولی سی شکایت کا بھی فوری ازالہ ہونا چاہیے اور گندم کی خریداری میں حکومتی پالیسی اور اقدامات میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہونا چاہیے تاکہ ثمرات کاشت کاروں تک پہنچانے میں کوئی غفلت نہ ہو۔ یہ اقدامات ہدایات اپنی جگہ اور گندم کے ایک ایک دانہ کی خریداری کا دعویٰ اپنی جگہ جبکہ حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں اور کاشتکاروں اور کسانوں کو مقررکردہ قیمت بھی نہیں مل رہی اور وہ گندم مافیا کے ہاتھ مقررہ قیمت سے کم گندم فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔