کبھی کبھی خبر بھی پورا کالم ہوتی ہے
رمضان کے مہینے میں اچھے اچھے سوکھے سوکھے کالم لکھنے کے لیے جی چاہتا ہے۔ ایک دردمند اور اچھی شخصیت والے سی سی پی او لاہور نے پولیس ملازمین کے بچوں کے لیے سکالر شپ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ انہوں نے اس کی ضرورت پر زور دیا۔ امین وینس کمال کے پولیس افسر ہیں۔ وہ باوردی ہوں تو بھی ان سے ڈر نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ حاضر سروس اہلکاروں کے علاوہ ریٹائر پولیس ملازمین اور خاص طور پر شہدا کے مسائل حل کرنے کی عملی کوشش کی جائے۔ انتظامی امور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ فلاحی منصوبہ بندی ایک بہت بڑا اور اعلیٰ کام ہے۔ اس سے پہلے ایسی بات سننے میں نہیں آئی۔
٭٭٭٭٭٭٭
ہلال احمر کے تحت جامعہ نعیمیہ میں آفات سے بچائو کے لیے تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی۔ جامعہ نعیمیہ کے لیے نعیمی صاحبان کی خدمات بہت قابل تحسین ہیں۔ علامہ راغب نعیمی آج کل یہاں معاملات کے سربراہ ہیں۔ ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ یہاں علم دین پڑھایا جاتا اور سماجی خدمات کے لیے بھی مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہلال احمر کے لیے بہت پہلے ایک سماجی اور فلاحی شخصیت علینہ بی بی نے بہت دلچسپ تعارف کرایا تھا۔ وہ خلوص دل سے ہلال احمر کے ساتھ منسلک ہیں۔
آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے ہاتھوں سے اور مسکراتے ہوئے لوگوں میں افطاری تقسیم کی۔ بچے عورتیں اوروہاں موجود لوگوں میں بڑی فراوانی سے روزہ افطار کرایا۔ وہ خواتین سے گلے ملیں اور بچوں کو پیار کیا۔ شہری حیرت زدہ ہو کر خوش ہوئے۔ زرداری صاحب اپنی بیٹی کے لیے بڑی محبت سے ذکر کرتے رہتے ہیں۔
پھر مولانا فضل الرحمن نے دوسروں سے مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ یعنی انہوں نے کوئی سنجیدہ چال چلی ہے۔ کسی کو پسند آئے نہ آئے۔ وہ اپنے مفاد کے لیے سوچ کر کام کرتے ہیں۔ ان کی یہ کریڈیبلٹی قائم و دائم ہے۔ ان کے آبائی صوبے خیبر پختون خواہ میں فاٹا کے لوگ اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کے لیے فیصلہ ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی سینٹ اور خیبر پختون خواہ میں منظوری کے بعد فاٹا اب خیبر پختون خوا کا حصہ بن چکا ہے۔ اسے پہلے علاقہ غیر کہتے تھے۔ اب فاٹا والے پوری طرح ہمارے ہم وطن ہیں۔ یہ بھی اب علاقہ پاکستان ہے پہلے مگر وہاں نہ تو پاکستان کا قانون چلتا تھا اور نہ وہاں جانے کے لیے خواہش پیدا ہوتی تھی۔ خیبر پختون خواہ کی صوبائی اسمبلی میں تقریباً سب لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ صرف چند لوگوں نے مخالفت کی۔ آخر حضرت مولانا کا اپنے صوبے میں کیا اثرورسوخ ہے؟ انہوں نے مخالفت کی ہے تو یہ سوچنے کی بات ہے۔ مولانا نے انضمام ہونے میں کیا مفاد دیکھا ہو گا۔ انہوں نے شکایت کی کہ اتنی لمبی وفاداریاں ن لیگ اور نواز شریف کے ساتھ قائم ہیں۔ مگر خیبر پختونخواہ میں انہیں مسترد کر دیا۔ اور انہیں شرمندہ ہونے کا موقع دیا۔ اس سے ان کی سیاست کا پتہ چلتا ہے۔ پھر بھی وہ آسانی سے منتخب ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصود جعفری عالمی شہرت یافتہ ہیں وہ امریکہ میں بھی اردو شاعری کرتے رہے۔ وہ دانشور اور خطیب بھی ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ گارڈن کالج راولپنڈی میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی کتابیں اردو فارسی اور انگریزی میں شائع ہوئی ہیں۔ انہیں قارئین سامعین سے بہت داد ملتی رہتی ہے۔ ان کے تازہ شعری مجموعے کا نام ’’گنبد افلاک‘‘ ہے۔ ان کے لیے کتاب میں سنیٹر جنرل قیوم، سابق وزیر جسٹس افضل حیدر، جبار مرزا، پروفیسر شوکت، عطاالحق قاسمی پروفیسر شازیہ اکبر اور دوسرے معروف لوگوں کے ڈاکٹر جعفری کو انسانی حقوق جمہوریت اور انسانیت کا عظیم علمبردار قرار دیا۔ انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی تازہ کتاب پڑھنے والوں کو بے قرار اور سرشار کرے گی۔
معروف اداکارہ جیکولین ایک لڑکے کا ڈانس دیکھ کر بہت متاثر ہوئی۔ اس بہت آرٹسٹ مزاج لڑکے کے گلے ملنا چاہا۔ لڑکے نے انکار کر دیا۔ جیکولن نے میڈیا سے کہا کہ ’’بچے اچھے ہوتے ہیں۔ وہ مجھے پسند کرتے ہیں مگر یہ بچہ انوکھا بچہ تھا۔ لیکن میں نے آخر اسے گلے لگا ہی لیا۔‘‘ یہ بھی خراج تحسین اور تعریف کا طریقہ ہے۔
بیاض اردو شعر و ادب کے لیے ایک بہت مختلف و ممتاز خوبصورت باقاعدہ اور سب سے زیادہ شائع ہونے والا جدید ادب کا نمائندہ رسالہ ہے۔
اس کے ایڈیٹر مرحوم خالد احمد تھے اور پبلشر عمران منظور تھے۔ اب دونوں ذمہ داریاں عمران ہی نبھا رہے ہیں اور خوب نبھا رہے ہیں۔ عمران کے چھوٹے بھائی نعمان منظور بھی پوری طرح شریک رہتے ہیں۔ ہر نیا شمارہ پہلے سے زیادہ ہوتا ہے۔ جمیل یوسف نے ’’بیاض‘‘ میں ایک آرٹیکل انور شعور کی شاعری کے لیے لکھا ہے۔ انور شعور کا ایک شعر دیکھیے۔ یہ مزاحیہ شعر نہیں ہے بلکہ ایک غزل میں شامل ہے۔ کچھ اشعار پر کئی کئی گمان ہوتے ہیں:
چھپوا دیا کریں کسی اخبار میں کلام
لیکن مشاعروں میں نہ شرکت کیا کریں
اس تعلق میں کہاں ممکن طلاق
یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں ہے
یہ شعر شادی شدہ آدمی ضرور پڑھیں اور غیرشادی شدہ بھی پڑیں۔