اتوار ‘ 18 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 3 جون 2018ء
فضل الرحمن نے ہنوز کشمیر کمیٹی کا چارج نہیں چھوڑا
خدا خیر کرے۔ کیا عبوری حکومت بھی مولانا کو کشمیر کمیٹی کا دائمی مجازی خدا تصور کرتی ہے کہ ان کو ہٹانے میں تامل ہے۔ جہاں ساری حکومت گئی تو اس حکومت کے دم چھلا چیئرمینوں سے کیسی رعایت۔ انہیں بھی عبوری حکومت چلتا کرکے عدل جہانگیری کی یاد تازہ کرے۔ یہ عہدہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے یا اس کیلئے عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے دیا جاتا ہے مگر سب جانتے ہیں کہ مولانا کو گزشتہ دس سالوں سے یہ عہدہ ان کی ہر حکومت سے وفاداری کے صلے میں پیش کیا گیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہی ہے۔ اب انہیں چاہئے کہ وہ ازخود یہ عہدہ چھوڑ کر اچھی مثال قائم کریں مگر ہمارے سیاستدانوں میں یہی تو بُرائی ہے کہ کرسی کو چھوڑنے کا تصور کرتے ہی ان کی ٹانگیں لرزنے لگتی ہیںجس پر اکثر دل جلے ....
کرسی ہے تمہاری یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
کہتے پھرتے ہیں۔اگر مولانا نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کے سوا کشمیر کیلئے کوئی کام بھی کیا ہوتا تو لوگ اسے مولانا کے کارنامے کے طورپر یاد رکھتے اور آئندہ بھی ان کی چیئرمینی کی دعا کرتے مگر یہاں تو دس سالہ کارکردگی گواہ ہے سوائے مراعات اور تنخواہوں کے ان کے کھاتے میں اورکچھ بھی درج نہیں۔
٭٭....٭٭....٭٭
امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو تحفظ دینے کی قرارداد ویٹو کر دی
ایک طرف تو امریکہ بہادر ساری دنیا میں انسانی حقوق کا چیمپئن بنا پھرتا ہے‘ دوسری طرف جہاں کہیں جمہوری حقوق کی آواز بلند ہوتی ہے‘ وہاں امریکہ اپنے من پسند حکمرانوں کو بچانے کیلئے پہنچ جاتا ہے اور انکے ساتھ مل کر انسانی حقوق کی پامالی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اسی دوغلی پالیسی کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکہ کے دوستوں کی تعداد کم‘ مخالفوں کی زیادہ ملے گی۔ عربوں نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا مگر اس کا صلہ کیا ملا۔ امریکہ انکے خلاف برسرپیکار عربوں کے سب سے بڑے دشمن اپنے لے پالک اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ اسرائیل اپنے مربی امریکہ کی شہ پر فلسطین میں جو کچھ کر رہا ہے‘ وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ذرا سا بھی کوئی ملک اس بدمعاشی کے خلاف آواز بلند کرے تو امریکہ اس کا گلا گھونٹنے پہنچ جاتا ہے۔ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف پورا فلسطین سراپااحتجاج ہے مگر امریکی صدر کانوں میں انگلیاں ٹھونسے بیٹھے ہیں۔اس خاموشی کی سزا اسرائیل فلسطین میں مسلمانوں کو دے رہا ہے۔ اب اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو تحفظ دینے کی قرارداد کویت نے عرب ممالک کے ایما پر پیش کی تو امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ حالانکہ خود امریکہ دن رات انسانوں کے تحفظ کیلئے پوری دنیا کو بھاشن دیتا پھرتا ہے مگر جب انسانوں کو تحفظ دینے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش ہو تو ویٹو کر دیتا ہے۔ کیا امریکہ فلسطینیوں کو انسان نہیں سمجھتا یا اس نے اپنے لے پالک کو خوش کرنے کیلئے اسے فلسطینیوں کے قتل عام کی اجازت دے رکھی ہے۔
٭٭....٭٭....٭٭
عدالت کا وزرا سے سرکاری گاڑیاں بھی واپس لینے کا حکم
”پیسے مک گئے تے سجن رس گئے“ والی بات حکومت کے خاتمے کے بعد سیاستدانوں کے ڈیروں خاص طورپر وزیروں اور مشیروں کے ڈیروں پر نظر آنے لگی ہے۔ کل تک ان ڈیروں پر دن رات خوب چہل پہل ہوتی تھی ‘وزیر اور مشیر دربار لگائے نظر آتے تھے۔ چمچے کڑچھے اچھلتے کودتے پھرتے تھے‘ آج وہاں ....
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
والی حالت ہے۔ اب یہ صاحبوں کے مصاحب نئے دروازے تلاش کریں گے جہاں سے ان کو داد و ہش ملے۔ خود وزراءکی حالت بُری ہے۔ کل وہ کسی کے سوال کا جواب دینے کے رودار نہیں تھے‘ آج لوگ انہیں دیکھ کر سلام کرنے کے رودار نہیں۔کوئی وزیر یا مشیر زبردستی رک کر کسی کو سلام کرنے کی کوشش بھی کرے تو وہ منہ پھیر کر اِدھراُدھر کھسک جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب یہ وزیر اور مشیر میر بے کارواں بنے پھر رہے ہیں۔ گاڑیاں ان سے عدالتی حکم پر واپس لی جا رہی ہیں۔ سکیورٹی پہلے ہی چھن چکی ہے۔ اب یہ بے چارے خواص سے عوام بن کر 5 سال بعد اپنے حلقوں کے ووٹروں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں‘ مگر اب ووٹر بھی چالاک ہو گئے ہیں۔ وہ ان ”گواچی گاں“ جیسی شخصیات کو دیکھ کر ہی رخ بدل لیتے ہیں۔ کئی ظالم تو جملے کسنے سے بھی باز نہیں آتے۔ فی الحال الیکشن مہم شروع ہونے تک سیاسی ڈیرے برباد رہیں گے۔ پھر جب بریانی کی دیگیں اور قیمے والے پراٹھے آئیں گے‘ چائے کا دور دورہ ہوگا تب لوگ اس طرف کا رخ کریں گے اور ان سابق وزیروں کی جان میں جان آئے گی۔
٭٭....٭٭....٭٭
چھ ماہ کے اندر لیپ ٹاپ کا استعمال نہ سیکھنے والے وزراءبرطرف کر دیں گے: نیپالی وزیراعظم
چار ماہ قبل فروری میں دوسری مرتبہ نیپال کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے والے کے بی شرما بھی عجب ستم ظریف ہیں کہ وزراءکو ایک نئی الجھن میں ڈال دیا کہ اب بہت سوں کو اپنی وزارتیں بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ اُن نے چاروں کو لیپ ٹاپ کا استعمال کرنے کی اہلیت سے مشروط کردیا، ہو سکتا ہے کہ شرما جی کو محسوس ہو کہ ان کی کابینہ کے وہ اراکین جو لیپ ٹاپ کا استعمال نہیں جانتے وہ سیدھے سبھاﺅ نہیں جائیں گے اس نے انہیں وزارت کا چسکا ڈالااب وہ اپنی وزارتیں بچانے کیلئے لیپ ٹاپ سیکھنے کی شرط پوری کرنے کیلئے جان بھی لڑادیں گے۔
کابینہ کا کوئی رکن اتنا غبی نہیں ہوگا کہ اس شرط پر پورا اترنے میں ناکام رہے لیکن اب شرما جی کے اعلان کے بعد اب نیپال کے کاروبار مملکت کا یہ عالم ہوگا کہ سیکرٹریٹ میں کام ٹھپ پڑا ہوگا سائل دھکے کھا رہے ہوں گے اور منتری جی کہیں لیپ ٹاپ سیکھنے گئے ہوں گے۔ یہ دور آئی ٹی کا ہے اور عالم یہ ہے کہ کوڑا جمع کرنے والے بھی گدھا ریڑھیوں پر بیٹھے موبائل سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں ۔ کھیتوں میں ہل چلانے والے کے گلے میں بھی موبائل لٹک رہا ہوتا ہے اور بعض کے پاس تو انتہائی جدید موبائل ہوتے ہیں جو لیپ ٹاپ سے کسی طرح کم نہیں ہوتے۔ آج تار برقی کا سلسلہ 1824ءمیں شروع ہوا۔ یہ سلسلہ پونے دو سو سال کے اندر اس قدر پھیلا اور وسعت حاصل کی کہ ”معلوم کائنات“ عام ناخواندہ انسان کی بھی مٹھی میںہے۔