مریم نواز کا قصور ؟
سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پچھلے آٹھ ماہ کے دوران جرا¿ت و استقامت سے احتساب عدالت میں70سے زائد پیشیاں بھگت چکی ہیں پاکستان کی سےاسی تارےخ مےں شاےد ہی کسی خاتون رہنما کو عدالتوں کے اس قدر چکر لگانا پڑے ہوں جس قدر انہیں چکر لگانے پر مجبور کر دےا گےا۔ مرےم نواز ہر پےشی پر اپنے والد مےاں نواز شرےف کے ساتھ پہاڑ کی طرح کھڑی ہوتی ہےں۔ انہوں نے بھی احتساب عدالت میں 127 سوالات کے جوابات دے دیئے ہیں۔ جس طرح ان کے والد میاں نواز شریف نے احتساب عدالت میں اپنا تاریخی بیان ریکارڈ کرایا تھا اسی طرح مریم نواز نے بھی اپنابیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ ےہ بےان ہماری عدالتی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے تین روز تک عدالت میں چار چار گھنٹے کھڑے ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے گویا انھوں نے ایک تاریخ رقم کی۔ انھوں نے احتساب عدالت مےں بےان رےکارڈ کے بعد پنجاب ہاﺅس میںمیاں نواز شریف کی موجودگی میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور اپنے خلاف دائر مقدمہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ مریم نواز نے جو کہ میاں نواز شریف کے ہمراہ پورے ملک میں جلسوں سے خطاب کر رہی ہیں اور متبادل قیادت کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوئی ہیں، کہا ہے کہ ” نواز شریف کی بیٹی ہونا ہی میرا قصور ہے۔ مقدمات میں الجھا کر میرے والد کو ”سبق“ سکھایا جا رہا ہے“۔ انھوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے میں ان کا ذکر تک نہیں تھا۔ لیکن اب ان کے خلاف مقدمہ بنا دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف کی بیٹی ہونا ان کی کمزوری نہیں بلکہ قوت کا باعث ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ” آپ پر مقدمہ کیوں بنایا گیا“ تو میں نے جواب دیا کہ نواز شریف کو سبق سکھانے کے لئے مجھے کیس میں گھسیٹا گیا۔ نواز شریف ووٹ کو عزت دلانے کےلئے جہاد پر نکلے ہیں، میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔ مجھے ریفرنس میں الجھانے کی وجہ میرے والد کے اعصاب پر دباﺅ ڈالنا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ” مجھے معلوم ہے کہ ستر سے زائد پیشیاں بھی بھگت چکی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ کےنسر کے مرض میں مبتلا میری ماں سے ملنے کیوں نہیں دیا جا رہا؟ یہ بھی جانتی ہوں کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں قوم کی کسی بیٹی کو اتنی پیشیاں نہیں بھگتنی پڑیں۔ میں کسی بدعنوانی میں ملوث نہیں۔ کوئی چوری یا ڈاکہ نہیں ڈالا۔ کبھی کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہوئی۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں نواز شریف کی بیٹی ہوں۔ مریم نواز کو ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مریم نواز کو عوام میں جو پذیرائی ملی ہے وہ توقع سے زیادہ ہے۔ وہ قوتیں جو میاں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانا چاہتی ہیں، وہ اس بات سے آگاہ ہیںکہ مریم نواز میں اپنی باپ کی جگہ لینے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔
اگر کچھ قوتےں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئیں تو مریم نواز ان کی جگہ بآسانی لے لیں گی اس لئے انہےں بھی عدالت مےں لا کھڑا کےا گےا ہے ۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ” منصوبہ ساز“ بخوبی جانتے ہیں کہ باپ بیٹی کا رشتہ کتنا نازک ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور مشرف کا ڈٹ کر مقابلے کرنے والے نواز شریف کو کس طرح سے جھکایا جا سکتا ہے ؟ اس کی بیٹی پر مقدمے بنائے گئے اور پھر اسے جے آئی ٹی کے سامنے پےش ہونے پر مجبور کےا گےا مگر ایسا سوچنے والے نواز شریف کو جانتے ہیں اور نہ ہی وہ ان کی بیٹی کو ۔“ سیاسی تجزیہ کار اور نواز شریف مخالف قوتیں ہمیشہ نواز شریف کو” انڈر ایسٹیمیٹ “کرتی رہی ہیں۔ نواز شریف پاکستان کے ان چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں پےشگوئی کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ وہ اپنی مٹھی مشکل سے ہی کھولتے ہیں۔
نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے” جبر“ کا دور توڑ نہیں سکا۔ انھوں نے پرویز مشرف سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ عسکری قوتوں کے دباﺅ کے باوجود وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرنے کا مقدمہ چلانے پر مصر رہے۔ یہ تو عدلےہ اور میاں نواز شریف کے دو قریبی ساتھیوں نے جنرل(ر)پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کا راستہ دینے کا ماحول پےدا کیا ۔ نواز شریف نے پہلی بار انکشاف کےا ہے کہ ان کا سب سے بڑا جرم جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانا قرار پایا ہے۔ ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے دوران فاصلوں کی بنیادی وجہ ہی ایک طالع آزما کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ ” ووٹ کو عزت دینے والا ہر شخص نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔“ پاکستان کا ہر شخص نواز شریف کے سیاسی بیانیے کی حقانیت کا قائل ہو گیا ہے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر جو موقف اختیار کیا ہے اس پر وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ کسی دباﺅ میں آ کر لچک اختیار کرنے والے نہیں ہیں۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ ”منصوبے بنانے والوں کو کہنا چاہتی ہوں کہ” یاد رکھو نواز شریف کی بیٹی اس کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی طاقت ہے اور ہر آزمائش میں اس کے ساتھ کھڑی ہے“۔ اگرچہ مریم نواز کے اس جارحانہ انداز پر پارٹی میں کچھ لیڈر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں لیکن باپ بیٹی کا بیانیہ مسلم لیگ کے کارکنوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ نواز شریف ”جبر “کی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوئے ہیں۔ عوام نے نواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں میں بھرپور شرکت کر کے ان کے دلیرانہ موقف کی تائید کی ہے اور اب تو مریم نواز واقعتاً ”مجمع“ کی لیڈر بن چکی ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوام کا سمندر امڈ آنا اور جوشیلے انداز میں نعرے بازی کرنا دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ اگر میاں نواز شریف کو جیل ہو جاتی ہے تو ان کے پیچھے کون پارٹی چلائے گا لیکن میاں نواز شریف نے سیاسی خلا ءپر کرنے کے لے میاں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنا کر اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔ مریم نواز میں وہ تمام صلاحتیں موجود ہیں جو ایک لیڈر میں ہونی چاہئیں۔ سرِ دست وہ میاں شہباز شریف کی جگہ تو نہیں لے رہیں لیکن میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز پر مشتمل مثلث بن گئی ہے جو نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی امور کو چلائے گی۔ ویسے بھی اس وقت پارٹی امور پر مریم نواز کی گرفت پائی جاتی ہے۔ میاں شہباز شریف کے صدر مسلم لیگ(ن) بننے کے باوجود کچھ فیصلے مریم نواز اپنے والد کی وساطت سے پارٹی سے منوا رہی ہیں۔ مریم نواز کے جلسوں میں جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ان کے مقابلے میں کسی اور جماعت میں مجمع اتنا ”چارجڈ “ نہیں ہوتا۔ مریم نواز لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں کہ نواز شریف کا ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ہی ان کی قوت و طاقت ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسے عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اس بیانیے میں اس قدر کشش پائی جاتی ہے کہ عوام نواز شریف اور مریم نواز کی طرف کھنچے چلے آ تے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پرجوش انداز، اس بات کا غماز ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام ووٹ کو عزت دلانے کی جدوجہد کرنے والے لیڈر محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد نا پختہ سیاسی تجزیہ کار یہ دعوے کر رہے تھے کہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں کمی آئے گی لیکن حالیہ گیلپ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک 33 سے 38 فیصد ہو گیا ہے جبکہ اس کی مدِ مقابل جماعت تحریک انصاف کا گراف 17 سے 25 فیصد تک پہنچا ہے۔ پنجاب جو کہ پاور بیس ہے، مسلم لیگ ن نے اپنی تمام تر توجہ پاور بیس پر مرکوز کر رکھی ہے۔ پہلے مرحلے میں میاں نواز شریف نے مریم نواز کو مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا ممبر بنایا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں 37رکنی مرکزی پارلیمانی بورڈ کا رکن بنا دیا ہے۔ اس لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ جاری کرتے وقت مریم نواز کا بڑا عمل دخل ہو گا۔ مریم نواز کے سیاست میں کردار سے جہاں بعض سیاسی جماعتوں کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے وہاں نواز شریف مخالف قوتوں کو بھی مریم نواز کا نواز شرےف کا سےاسی جانشین بن جانا درد سر بن گےا ہے۔
مریم نواز بھی اپنے باپ کی طرح غیر لچک دار رویہ رکھنے والی جارحانہ سیاست کرنے والی خاتون ہیںجن کے جارحانہ رویے سے بعض اوقات سیاسی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں لےکن مجموعی طور پر مریم نواز نے اپنے آپ کو ایک مضبوط سیاست دان ثابت کیا ہے جو اپنے باپ کی جگہ بخوبی لے سکتی ہیں۔ گو وہ بے نظیر بھٹو تو نہیں بن سکےں ، اور نہ ہی اس وقت انہےں بے نظیر بھٹو جیسے حالات کا سامنا ہے ، لیکن جس طرح انہےں ”مقتل“ مےں لا کھڑا کےا گےا ہے وہ ِ مسلم لےگ (ن) کی بے نظیر بن جائیں گی، جن کے گرد ملکی سیاست گھومے گی تاہم انھیں مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالنے کے لئے اپنے ”انکلز“ سے جان چھڑانے کی بجائے ان سے مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنی پڑے گی ۔ مریم نواز کے گرد جو نو وارد مسلم لیگی اکٹھے ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ بنانے کے لئے انھیں ان ”انکلز“ سے دور کر رہے ہیں جنھوں نے پوری زندگی نواز شریف کو ملک کا بڑا لیڈر بنانے میں صرف کر دی۔ مریم نواز کا قصور یہ بھی ہے کہ وہ مستقبل کی بڑی لیڈر ہیں انھیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے مختصر عرصے میں اپنے والد نواز شریف کے ہمراہ اور الگ بڑے بڑے جلسے منعقد کر کے عوام کی عدالت سے اپنی قیادت پر”مہر تصدےق“ ثبت کرا لی ہے۔