سیاسی نظام کی پائیداری کا سفر
جدید قومی ریاست میں آئین وہ بنیادی دستاویز ہے جو ریاست، حکومت، افراد کے باہمی تعلقات اور ان کے تنازعات کو طے کرنے کے طریقے اور اصول بیان کرتا ہے۔ آئین کی پاسداری ریاست میں ابہام اور بے یقینی کو ختم کرتی ہے، اداروں میں ہم آہنگی اور حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ پیدا کرتی ہے۔ آئین کی عملداری کی عدم موجودگی میں بے یقینی پھیلے گی اور ملک افراتفری اور بے چینی کا شکار ہو جائیگا۔ ماضی قریب میں اس وقت آئینی تعطل پیدا ہوگیا۔ جب اکتوبر 1999 میں فوج نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کر دیا۔ اعلیٰ عدلیہ میں جب یہ معاملہ زیر بحث آنے والا تھا تو عدلیہ کو نیا حلف لینے کا کہا گیا ان صاحبان حضرات کو جن کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ ایمرجینسی کی مخالفت کرینگے حلف لینے کیلئے مدعو نہیں کیا گیا۔ ماضی میں نافذ ہونیوالی مارشل لاءحکومتوں کے برخلاف اس فوجی حکومت نے اپنی مداخلت کو مارشل لاءکا نام نہیں دیا، فوجی عدالتیں قائم نہیں کیں اور نہ ہی بنیادی حقوق کو معطل کیا۔ لہذا نئی حلف یافتہ عدلیہ نے جلد ہی ظفر علی شاہ درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرکے ایمرجنسی کو قانونی جواز مہیا کر دیا لیکن ساتھ یہ قدغن بہی لگادی کہ فوجی حکومت تین سال میں انتخابات کراکر اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کردیگی۔
فوجی حکومت نے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے، اکتوبر 2002ءمیں انتخابات منعقد کرائے اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردیا۔ یہ الگ بات کہ اس حکومت کے پس منظر میں فوجی حکمرانوں کا واضح کردار کار فرما رہا۔ بعد ازاں پیش آنے والے واقعات اور ان کے جبر نے فوجی تسلط کو توڑ دیا اور جب قومی اسمبلی نے 15 نومبر 2007 کو اپنی مدت مکمل کی تو نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کیوجہ سے انتخابات میں چند ہفتوں کی تاخیر ہوئی، لیکن 18 فروری 2008 کو بالآخر ملک میں پر امن انتخابات کا انعقاد ہوگیا۔ نتیجتاً اقتدار ایسی سیاسی جماعتوں کو منتقل ہوگیا جو ماضی کی فوجی قیادت کی مخالف تہیں اور کچھ دنوں بعد قصر صدارت بہی ان کے ہاتھ آگیا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورت بہی عود کر آگئی، لیکن وزرائے اعظم کی تبدیلی کے باوجود سیاسی عمل جاری رہا۔ مارچ 2013 کو ایک اور اسمبلی نے اپنی مدت پوری کرلی اور 11 مئی 2013 کو ایک بار پھر انتخابات کا میدان سج گیا۔ جس کے نتیجے میں وفاق میں اقتدار ایک نئی سیاسی جماعت کو پر امن طور میں منتقل ہوگیا۔
31 مئی 2018 سے ملک کی تاریخ میں ایک اور یادگار دن کا اضافہ ہوگیا، جب لگا تار تیسری قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرکے تحلیل ہوگئی اور ملک میں نئے انتخابات کا شیڈول بہی جاری ہوگیا جس کے تحت پولنگ 25 جولائی کو ہوگی۔ اگر ہم ان ساری اسمبلیوں کے ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ حالیہ پانچ سال گزشتہ دس سالوں کے مقابلے میں زیادہ پرآشوب حالات پر مشتمل رہے ہیں۔ 2014 میں ہونے والے دھرنے اور بعد ازاں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ گذشتہ سال جولائی میں نواز شریف صاحب کی نا اہلی اس سے بڑا واقعہ تہا جو ماضی میں پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے پیش آیا تھا۔ اس کے بعد سے حالات کسی حد تک بے یقینی کا شکار رہے ہیں۔ اسمبلی کی مدت پوری ہونے اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے متعلق خدشات کا تواتر سے اظہار اور ایک موقع پر خود قومی اسمبلی کے اسپیکر کا برملا اس کا بیان ان شبہات کو تقویت دیتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات کا بھی کھلے عام ذکر ہوتا رہا ہے کہ غیر مرئی قوتیں نہ صرف سیاسی عمل میں مداخلت کر رہی ہیں بلکہ شائد وہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ان تمام خدشات اور اندیشوں کے علی الرغم جمہوری عمل آگے بڑھ رہا ہے اور قوم آئین کے مطابق اپنی اگلی منزل سے قریب آگئی ہے۔ ملک کی تاریخ میں انتخابات کا تسلسل ماضی میں بھی نظر آتا ہے۔ 1985-1999 ءکے دوران چودہ سال کے عرصے میں پانچ انتخابات ہوئے تھے لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ سیاسی عدم استحکام کا دور تھا اور ان پانچوں انتخابات سے وجود میں آنیوالی اسمبلیوں میں سے کوئی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکی تھی۔ لہذا موجودہ سولہ سالہ تسلسل اپنی نوعیت کا پہلا واقع ہے۔ سیاست دانوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کے انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوں اور اقتدار چوتھی مرتبہ پر امن طریقے سے منتخب نمائندوں کو منتقل ہو جائے۔ وفاق میں عبوری حکومت قائم ہوگئی ہے اور پچھلی دفعہ کے مقابلے میں عبوری وزیراعظم کا انتخاب قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے سامنے آیا ہے۔ خود سابق چیف جسٹس ناصر الملک جو نیک شہرت اور قابل رشک عدالتی پس منظر کے حامل ہیں، کا اس عہدے پر فائز ہونا جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے اعتماد کو بڑہانے کا باعث ہونا چاہیے۔ ان کی موجودگی میں کسی غیر آئینی عمل کی گنجائش نہیں ہوگی۔
آخر میں ہم ایک خدشے سے متعلق کچھ معروضات رکھنا چاہیں گے۔ بعض حلقے ابھی بھی انتخابات کے التواءکے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ کچھ دوسرے حلقے باقاعدہ اس التواءکی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اول الذکر سے متعلق ہم نے ان پیش رفتوں کا ذکر کردیا ہے جو ان خدشات کی نفی کرتی ہیں۔ لہذا ہماری نظر میں ان خدشات کی کوئی قابل فہم بنیاد نہیں ہے۔ جہاں تک ان اصحاب کا تعلق ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے معروضی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فی الحال کچھ عرصے کیلئے قومی حکومت تشکیل دی جائے جو ملکی معیشت کو مستحکم اور سیاسی پارے کو ٹھنڈا کرے اور اس کے بعد انتخابات کا انعقاد کرایا جائے تو ہم اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آئین میں اس طرح کے انتظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس مضمون کے آغاز میں ہم نے عرض کیا تھا کہ جدید ریاست کا نظام احسن طریقے سے صرف اسی صورت چل سکتا ہے جب اس میں آئین کی پاسداری ہو۔ لہذا کسی بھی غیر آئینی عمل سے بے چینی، اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی جس سے ملکی استحکام اور وحدت پر بُرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جو سامنے آرہا ہے وہ کچھ حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ موسم کی خرابی اور حج کی تاریخوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، چند ہفتوں کیلئے انتخابات کی تاریخ آگے کر دی جائے۔ ہماری نظر میں اس تجویز کو اسی انداز میں دیکھنا چاہیے جیسا کہ مرحومہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر پیش آنی والی صورتحال کے پس منظر میں انتخابات کی تاریخ سیاسی رہنماو¿ں کی مشاورت سے چھ ہفتوں کیلئے آگے بڑھا دی گئی تھی۔ یہ ایک آئینی راستہ ہوگا کیونکہ آئین کا آرٹیکل 254 یہ گنجائش پیدا کرتا ہے کہ کوئی آئینی عمل جو ایک خاص مدت میں انجام دیا جانا ہو، تو اس کا انجام دینا صرف اس وجہ سے غیر آئینی نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس خاص وقت میں انجام نہیں پایا۔ لہذا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو باہمی مشاورت سے سیاسی طور پر حل کریں اور اس کو نزاع کا شکار نہ ہونے دیں۔