بھٹو خاندان کے بعد زرداری خاندان میدان میں
شہزاد چغتائی
عام انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی کے اجراء کے ساتھ سیاسی گہما گہمی بڑھ گئی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈز کے صبح شام اجلاسوں میں امیدواروں کے نام تیزی سے فائنل کئے جانے لگے بلاول ہائوس میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈز کے اجلاس کئی دن تک جاری رہے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس صوبائی صدر شاہ محمد شاہ کی زیرصدارت جاری رہے کراچی کیلئے مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی حتمی فہرست کی منظوری کیلئے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو کراچی آنا تھا لیکن ان کا دورہ کراچی اچانک منسوخ ہوگیا تحریک انصاف کے امیدواروں کا اعلان اسلام آباد میں ہوا جس پر تحریک انصاف کے کارکن مشتعل ہوگئے انہوں نے انصاف ہائوس پر حملہ کردیا اور توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کی پٹائی کردی اوران کو طمانچے رسید کردیئے۔ اینکرعامر لیاقت نے مشتعل ہوکر تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردیا ایم کیو ایم کے کمزور ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی عقابی نگاہیں کراچی کے ووٹ بنک پر ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر امیدواروں کا بہت دبائو ہے امیدواروں کا خیال ہے کہ ٹکٹ ملنے کی صورت میں وہ میدان مار لیں گے۔ کیونکہ ایم کیو ایم لندن نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ ایم کیوا یم ختم ہوگئی ہے اوراس کے دھڑوں میں دم خم نہیں ہے اس لئے کراچی کی نمائندگی حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی ہے کہ ہمیں اُردو بولنے والوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں۔میگاسٹی کا انتخابی منظر نامہ بہت دھندلایا ہوا ہے ایم کیو ایم لندن کے بعد اب ایم کیوایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی انتخابات کے بائیکاٹ کی جانب اشارے کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوںکا خیال ہے کہ چند روز میں ایم کیو ایم کے دھڑوں میں انضمام نہ ہوا تو پھر کراچی کا مینڈیٹ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اورکراچی کی نشستیں پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن)‘ متحدہ مجلس عمل اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان بٹ جائیں گی سب سے زیادہ فائدہ متحدہ مجلس عمل کو ہو گا۔ ان حلقوں کے مطابق اگر ایم کیو ایم متحد ہو جاتی ہے تو پھر بھی اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی اور ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بائیکاٹ سے سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو ہوگا۔ ایم کیو ایم لندن کے بائیکاٹ سے دوسری جماعتوں کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کو بھی فائدہ ہوگا جوکہ پہلی بار کراچی میں بہت طاقتور پوزیشن میں ہے پیپلز پارٹی پہلی بار بلاول بھٹو اورآصفہ بھٹو کو میدان میں اتار رہی ہے۔بھٹو کا تو نام ونشان مٹ گیا اس بار زرداری خاندان میدان میں ہے سابق صدر آصف علی زرداری کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی میدان مار لے گی اور کم از کم مخلوط حکومت بن جائے گی 2008ء اور 2013ء میں آصف علی زرداری نے الیکشن نہیں لڑا تھا لیکن اب وہ نواب شاہ سے امیدوار ہیں۔ سیاسی حلقے سوال کر رہے ہیں پورا خاندان کیوں انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔ بلاول بھٹو کے مقابلے میں آصف علی زرداری کا حلقہ آسان ہے۔ لاڑکانہ کی سیٹ پر آصفہ بھٹو بھائی کی متبادل امیدوار ہیں۔ اس نشست پر گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بلاول بھٹو کیلئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔این اے 200پر فریال تالپور الیکشن جیت گئی تھیں۔ لیکن ان کے ووٹ مخالف امیدواروں سے کم تھے جمعیت علماء اسلام کے رہنما راشد محمود سومرو صاف کہہ چکے ہیں کہ ہم بلاول بھٹو کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے لاڑکانہ کے مقابلے میں بلاول بھٹو کی لیاری کی نشست بہت زیادہ محفوظ ہے۔ پیپلز پارٹی نے 2013ء میں این اے 246 لیاری سے شاہجہاں بلوچ کو ٹکٹ دیا تھا شاہجہاں بلوچ نے جیل سے الیکشن لڑا تھا۔ لیاری سے شاہجہاں بلوچ کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار نے حیران کن طور پر 40 ہزر کے لگ بھگ ووٹ لئے تھے جو کہ ایک معمہ ہے اُس وقت لیاری نوگو ایریا تھا اور کوئی بھی امیدوارلیاری نہیں گیا تھا۔ آصفہ بھٹو بھی کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے پر تول رہی ہیں۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست نمبر 10 سے کاغذات نامزدگی حاصل کئے تھے آصفہ بھٹو کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے فیصلے کے بعد وزارت اعلیٰ کے امیدواروں میں کھلبلی پائی جاتی ہے سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بہت پہلے کہا تھا کہ وہ آئندہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار نہیں ہوں گے لیکن ان کی نظریں ایک بار پھر چیف منسٹر شپ پر ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات ناصر شاہ بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ الیکشن سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری نے سندھ کے اہم خاندانوں‘ جاگیرداروں اور اہم شخصیات کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ ٹھٹھہ کے شیرازی برادران نے آصف علی زرداری کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جبکہ مہر قبیلے کے سردار اور صوبائی وزیر سردار احمد محمد بخش مہر نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ محمد بخش مہر کی دعوت پر بلاول بھٹو نے مہر خاندان کے گڑھ گھوٹکی میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کا اعلان کر کے مہر قبیلہ میں دراڑ ڈال دی۔ اس طرح مہر خاندان الیکشن سے پہلے منقسم ہو گیا۔ مہر قبیلے کے سربراہ سردار علی گوہر نے کچھ عرصے قبل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
کراچی میں یہ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف اورگرینڈ ڈیمو الائنس میں اتحاد ہوگیا ہے۔ لیکن اب تک اس کا اعلان نہیں ہوا ہے کراچی میں پیپلز پارٹی کو کوئی چیلنج درپیش نہیں لیکن اندرون سندھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پیپلز پارٹی کیلئے درد سر بنتا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی نے مہر خاندان‘ شیرازی خاندان اور مخدوم خاندان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا لیکن ٹکٹوں کی تقسیم پرپیپلز پارٹی کے اندر زبردست اختلافات پیدا ہوگئے ملیر سے کشمور تک جیالے نووارد امیدواروں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ان کا مطالبہ ہے کہ پرانے جیالوں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے اس کے ساتھ لوٹ مار کرنے والے اور ترقیاتی منصوبوں کے پیسے جیب میں ڈالنے والوں کو ٹکٹ نہ دیئے جائیں۔سابق صوبائی وزیر ذوالفقار مرزا کے بعد ان کی اہلیہ اورسابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا گرینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی میں شامل ہوگئیں اورانہوںنے فنکشنل مسلم لیگ کے صدر پیرپگارا کے ساتھ دھواں دھار پریس کانفرنس کرڈالی اس موقع پر ذوالفقار مرزا نے بلاول بھٹو کو گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس میں شمولیت دیدی پیرپگارا نے کہاکہ الیکشن وقت پر ہوجائیں تو بہت اچھا ہے اس سے پہلے پیرپگارا کہتے تھے ا لیکشن نہیں ہوں گے۔ صوبہ سندھ کایہ کریڈٹ ہے کہ حکومت اوراپوزیشن نے مل کر نگراں وزیراعلیٰ کا انتخاب افہام تفہیم سے کرلیا جس کے بعد نگراں وزیراعلیٰ فضل الرحمن نے حلف اٹھالیا۔ فضل الرحمن دوبار چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے چیف سیکرٹری کی حیثیت سے سب سے زیادہ وقت گزارا۔گورنر ہائوس میں منعقدہ سادہ اور پروقار تقریب میں گورنر سندھ محمد زبیر نے فضل الرحمن سے سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف لیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض چیف سیکرٹری سندھ محمد رضوان میمن نے انجام دیئے۔ تقریب میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ‘ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج دررانی‘ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا‘ میئر کراچی وسیم اختر‘ صوبائی وزراء نثار کھوڑو‘ ناصر حسین شاہ‘ سعید غنی‘ شمیم ممتاز‘ سینیٹر سلیم ضیائ‘ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل محمد سعید‘ صوبائی محتسب اسد اشرف ملک‘ صوبائی سیکرٹریز‘ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور عمائدین شہر نے شرکت کی۔ حلف برداری کے بعد فضل الرحمن نے تقریب کے شرکاء سے فرداً فرداً ملاقات بھی کی۔نگراں وزیر اعلیٰ سندھ فضل الرحمن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد گورنر سندھ محمد زبیر سے ملاقات کی۔ گورنر سندھ نے نگراں وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر فضل الرحمن کو مبارکباد دی۔ ملاقات کے دوران 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو صاف و شفاف اور منصفانہ بنانے کے اقدامات‘ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے یکساں مواقعوں کی فراہمی‘پولنگ والے دن امن و امان کو یقینی بنانے سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گورنر سندھ نے کہاکہ قوی امید ہے کہ آپ بطور نگران وزیراعلیٰ اپنی خدمات احسن طریقہ سے اور عوام کی توقعات کے مطابق ادا کریں گے۔ گورنر سندھ نے مزید کہاکہ آئندہ انتخابات ہماری سیاسی تاریخ کا اہم ترین موڑ ثابت ہوں گے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت ہورہے ہیں جب گزشتہ 5 سال کے دوران امن و امان کے قیام اور معاشی ترقی و خوشحالی کیلئے کئی ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں۔ ادھر کاغذات کے اجراء کے ساتھ کراچی کے سٹی کورٹ کی رونقیں دوبالا ہو گئیں۔ جہاں دوسرے امیدواروں کے ساتھ خواجہ سرائوں نے بھی الیکشن فارم حاصل کرلئے قومی اسمبلی کے کاغذات جمع کرانے کی فیس 30 ہزار اورصوبائی اسمبلی کیلئے فیس 20ہزار مقرر کی گئی ہے۔ دو دن میں صرف پی ایس پی کی سمیتا افضال نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے سمیتا افضال نے کہاکہ وہ منتخب ہوگئیں تو لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سمیتا افضال 5 سال تک رکن اسمبلی رہیں‘ 5 سال میں ان کا کریڈٹ یہ ہے کہ جاتے جاتے انہوں نے وفاداریاں تبدیل کر لیں۔ سمیتا افضال سمیت ایم کیو ایم کی ارکان صوبائی اسمبلی پر پیسے وصول کرنے کا الزام ہے۔