آوے کا آوا کیسے بگڑا؟؟؟
سبحان اللہ میاں نواز شریف فرماتے ہیں‘ لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار نگران حکومت ہے‘ اور اس سے پہلے چھوٹے میاں صاحب جو عرف عام میں خادم پنجاب کہلاتے تھے‘ نے بھی فرمایا کو ہم جا رہے ہیں‘ لہذا لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار ہم نہیں نگران حکمران ہوں گے‘ عوام اب ان سے پوچھیں‘ کون کسی سے کیا پوچھے؟ پوچھنے والوں نے خود کاغذات نامزدگی بارے پنجاب ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا‘ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل‘ وہ دکاں اپنی بڑھا گئے۔ اس پر ڈاکٹر طاہر القادری نے فرمایا آج آئین پاکستان کی شقیں 62 اور 63 یتیم ہو گئیں۔ یہاں دلچسپ امر یہ کہ طاہر القادری الیکشن لڑنے ہی نہیں جا رہے‘ ورنہ ان شقوں کی حقیقی موجودگی سے انہیں پتہ چل جاتا کہ یتیم کسے کہتے ہیں اور یتیم کون ہوتا ہے؟ لہذا صاف ظاہر ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے ایکا کر کے کاغذات نامزدگی میں 62,63 سے خلاصی حاصل کی اور اب وہ سیاسی حلقے اس مساعی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں‘ جن کے منشور میں الیکشن لڑنا ہی نہیں لکھا۔ وہ سینہ ٹھونک ٹھونک کر 62,63 کی باتیں کر رہے ہیں۔ پنجابی میں کہاوت ہے اکھوں انھی تے ناں نور بی بی.... یہی معاملہ ہے کہ پارسائی کی ان ہر دو آئینی شقوں کو ا گر احتساب کرنے والوں پر بھی لاگو کر دیا جائے تو شاید ہی معدودے چند منصف ہی سرخرو ہو سکیں۔ تو پھر بات سیدھی کیوں نہیں کہتے کہ دال میں کچھ کالا نہیں ساری دل ہی کالی ہے۔ اسی لئے فانی بدایونی نے کہا تھا:
بدلنا ہے تو مے بدلو نظام مے کشی بدلو
ورگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا؟
اور ہم گزشتہ 7 دہائیوں سے جام و مینا بدلنے کے ذریعے اصلاح احوال کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو بے سود ہونے کے ساتھ ساتھ بے توفیق کام بھی ہے۔ کہاں سے لائیں چودھری محمد علی اور ان سے پہلے کے صالح حکمران‘ جو دیانتداری اور امانتداری کا عملی نمونہ تھے۔ 62,63انہوں نے مسلمان ہونے کے ناتے ازخود اپنے اوپر لاگو کر رکھی تھیں۔ چودھری محمد علی بیمار ہو گئے تو ازخود کابینہ اجلاس میں بیرون ملک علاج کا معاملہ رکھا۔ کابینہ کے وزیروں نے کہا چودھری صاحب کھانا کھلائیں‘ بولے یار میری اہلیہ بہت بوڑھی ہیں‘ چند لوگوں سے زیادہ کا کھانا نہیں بنا سکتیں‘ آپ لوگ ٹولیوں میں آ جا¶ کھانا کھلا دوں گا۔ یہ ہوتی ہے 62,63 کی حقیقی روح۔ کیا آپ فی زمانہ کسی مقتدر عہدیدار سے اس شفافیت کی توقع کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں‘ بلکہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چودھری محمد علی مرحوم کے بعد قوم پر یکے بعد دیگرے جو چار صدور مسلط کئے گئے ان میں صدر ایوب خان‘ صدر آغا یحیٰی خان‘ صدر ضیاءالحق اور صدر پرویز مشرف شامل ہیں‘ ان میں اگر پانچواں صدر آصف زرداری کو بھی شمار کر لیا جائے تو یوں فہرست مکمل ہو جائے گی۔یہ اپنی نوعیت کے وہ صدر پاکستان تھے‘ جن کے بارے کہا گیا‘ تیرا پاکستان ہے‘ نہ میرا پاکستان ہے‘ یہ اس کا پاکستان ہے‘ جو صدر پاکستان ہے۔ ان میں صدر پرویز مشرف جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے۔ قدرت کی ایک نرالی اور اچھوتی اختراع بن کر پاکستانی قوم پر نازل ہوئے اور سیاستدانوں کو کیا پوری قوم کو بھی ایسی ایسی سیاسی درفنطینوں سے روشناس کرایا‘ جو اس سے پہلے ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہی نہیں تھےں۔ این آر او کو ہی لے لیجیے‘ پرویز مشرف کی پشت پر دو آئینی و قانونی جادوگر تھے۔ دونوں نے ان کے ساتھ مل کر اپنے جوہر خوب دکھائے۔ ہمارے ایک ستم ظریف شاعر نے پرویز مشرف پر ایک طویل نظم لکھی‘ جس کا ایک بندازراہ تفنن پیش کرتا ہوں
صدر پاکستان کیا رقبہ ہے تیری ناک کا
تو ہی آقا ‘ تو ہی مولا ابرو باد و خاک کا
تو نے ٹھیکہ لے لیا ہے سرزمین پاک کا
تیرے چمچوں ‘ تیرے کڑچھوں‘ تیرے یاروں کو سلام
صدرپاکستان تیرے رشتے داروں کو سلام
پاکستانی قوم نے یہ کڑا وقت بھی دیکھا ‘ اس وقت قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی بات کرنے والے اہل دل مجید نظامی مرحوم اور ان کے چند نظریاتی ساتھی ہی رہ گئے تھے‘ ورنہ حکمرانوں اور اہل اقتدار کی اکثریت میکا ولی اور چانکیہ کے نظریات کی پرچارک تھی۔ نظریاتی کھوکھلا پن تو یہاں سے شروع ہوا کہ ہمارے دانشور طبقے کی اکثریت مولانا ابو لکلام آزاد کی پاکستان بارے میں پیشنگوئیوں کی مبلغ بن گئی۔ اس پر اہل نظر چیخ اٹھے اور کہا جناب یہ پیشنگوئیاں نہیں مولانا آزاد کی پاکستان بارے خواہشات ہیں‘ جن میں نہرو اور پٹیل ایسے مسلم دشمن اور متعصب ہندو لیڈروں کی پاکستان دشمنی سر چڑھ کر بولتی رہی۔ اہل فکر و نظر کا بھی یہ کہنا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ملک جو انہوں نے بنایا ہی نہیں‘ اس کے خاتمے کی پیشنگوئیاں کرتے پھریں (خاکم بدہن) پھر ذہنی طور پر دیوالیہ پن یہاں سے بھی وجود میں آیا‘ جب ہم نظریاتی فرسٹریشن کے سبب اپنی چال بھول کر دوسروں کے ٹپوں پر ناچنے لگ گئے۔ یورپ ہمارے اعصاب پر سوار ہو گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے ایسا متحارب کیا کہ ہم اپنے وجود کی بوٹیاں نوچنے لگے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دینی و مذہبی پیشوا¶ں نے غلط تعبیروں سے ہمارے ایمان و ایقان کو ملیا میٹ کر دیا۔ انہوں نے خود کش دھماکے کرنے والوں کی آنکھوں کے سامنے حوریں اور جنت لاکھڑی کی۔ حفاظ بچوں کی برین واشنگ کر کے انہیں ایسے ہدف پر لے جا کھڑا کیا جو ہرگز ان کا منصب نہ تھا۔ شاہین بچوں کو خاکبازی کا سبق دینے کی پشنگوئی تو اقبالؒ نے بہت پہلے ہی کر دی تھی‘ لہذا اب یہاں قائد و اقبال کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح دب کر رہ گئی۔ تجزیہ کیجئے دال ساری کی ساری ایک رات میں ہی کالی نہیں ہوئی‘ آوے کا آوا چند ثانیوں میں نہیں بگڑا بلکہ بقول قابل اجمیری وقت برسوں اس کی پرورش کرتا رہا۔ یوں بھی قوموں پر برے وقت یکدم نہیں آتے‘ انہیں نصیحت کرنے والوں کی ایک پوری کھیپ ناکام ہو جائے تو پھر انجام کار وہ ثانیہ بھی آن پڑتا ہے‘ جب د عائیں بے اثر اور دوائیں بھی کارگر نہیں ہوتیں۔ اندھیرے اپنے پیرہن بدل بدل کر آئے اور روشنی دکھ کے چرنوں سے جھانک جھانک کر عاجز آ جاتی ہے۔ اہل دل و نگاہ کا کہنا ہے پاکستانی قوم پر وہ وقت آن پہنچا ہے جب وہ پرانے نظام اور کلیشے دونوں کو اکھاڑ پھینکیں اور سیدھی اختیار کریں۔ جو بقول م¶ذن فلاح کا راستہ ہے۔ آئیے اب ذرا آمدہ عام انتخابات کی روشنی میں اپنی سیاسی لیڈر شپ کا باطنی تجزیہ اس نکتہ¿ نظر سے کریں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے‘ تو سینئے پھر دل پر ہاتھ رکھ کر‘ نواز شریف اور ان کی پارٹی جھوٹ پر جھوٹ بول کر عوام کو سچ کا عندیہ دے رہی ہے‘ آصف زرداری دن میں دو تین مرتبہ مینڈک کی طرح نہا دھو کر لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ عمران اور ان کی جماعت کے تضادات سے لوگ پریشان ہیں‘ ان کی کوئی سمت واضح نہیں‘ نہ ہی پارٹی میں کوئی ڈسپلن نام کی چیز موجود ہے۔ اے این پی قیام پاکستان کے بدترین مخالف باچا خان کا فلسفہ ٹھونسنا چاہتی ہے۔ ایم ایم اے چوں چوں کا مربہ ہے‘ اسلامی نہ غیر اسلامی ‘ ق لیگ گئے وقتوں کے عہد پرویز مشرف کی تلخ داستان ہے اور ایم کیو ایم کو ایک مردہ گھوڑے کی طرح بار برداری کے کام میں لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اب کھلے حقائق کی روشنی میں آپ پوچھیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟ جی اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھے‘ آپ کو اپنی ہی کروٹ بیٹھنا پڑے گا۔ پارٹیوں اور لیڈر شپ کو چھوڑیں‘ اس امیدوار کو ووٹ دیں جو آپ کے خیال میں یا ایمان اور با ایقان ہو‘ ووٹ دے کر نتیجہ اﷲ پر چھوڑ دیں۔ مالی داکم پانی لانا‘ بھر بھر مشکاں لائے‘ مالک داکم پھل پُھل لانا‘ لا وے یا نہ لاوے۔