حسن عسکری نگران وزیراعلی پنجاب مقرر‘ مسلم لیگ ن‘ پی پی‘ اے این پی کے تحفظات بلوچستان علاﺅ الدین مری کے حوالے
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) الیکشن کمشن نے پروفیسر حسن عسکری کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور علا¶الدین مری کو نگران وزیراعلیٰ بلوچستان مقرر کر دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی زیرصدارت الیکشن کمشن کا اجلاس ہوا جس میں چاروں ممبران نے شرکت کی۔ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن اختر نذیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا الیکشن کمشن نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ پروفیسر حسن عسکری کو مقرر کیا جائے۔ پروفیسر حسن عسکری کا شمار پاکستان کی نامور علمی شخصیات میں ہوتا ہے اور وہ ملکی اور غیر ملکی درسگاہوں میں شعبہ علم و تدریس سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز پر اہم موضوعات پر ایک مایہ ناز مبصر تصور کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر صوبائی حکومت اور اپوزیشن نے پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی تاہم وہاں بھی ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے پر یہ معاملہ الیکشن کمشن کو بھجوا دیا گیا تھا۔ اس سے قبل پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایڈمرل (ر) محمد ذکاءاللہ اور جسٹس (ر) ثائر علی کا نام تجویز کیا گیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے پروفیسر حسن عسکری اور ایاز امیر کا نام پیش کیا تھا، تاہم اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید نے دعویٰ کیا تھا مسلم لیگ (ن) نے ایاز امیر کے نام پر اعتراض اٹھایا تھا جبکہ پی ٹی آئی نے ایڈمرل (ر) محمد ذکاءاللہ کے نام پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ الیکشن کمشن کو بھیج دیا گیا تھا۔ نامزد نگران وزیراعلیٰ پنجاب آج (جمعہ) اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا کہ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے لئے آج صبح چار نام الیکشن کمشن کو موصول ہوئے جس کے بعد ایک بجے الیکشن کمشن میں اجلاس ہوا جس کی صدارت چیف الیکشن کمشنر نے کی۔ اجلاس میں باہمی مشاورت کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاﺅالدین مری ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ علاﺅ الدین مری کا تعلق بلوچستان کے ضلع مستونگ سے ہے۔ انہوں نے گریجویشن کے بعد مفاد عامہ کے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ دوسری طرف الیکشن کمشن نے پروفیسر حسن عسکری کی بطور نگران وزیراعلی پنجاب تقرری پر مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمشن کسی دبا¶ میں آکر کام نہیں کرتا اور حسن عسکری کا نام متفقہ طور پر فائنل کیا ہے۔ ترجمان الیکشن کمشن الطاف خان نے کہاکہ نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب سیاستدانوں کا کام تھا، ہمارے پاس ایک آئینی تقاضہ تھا۔ انہوں نے چار نام ہمیں دیئے۔الطاف خان کا کہنا تھا کہ چار ناموں پر انتہائی آئینی و قانونی طریقے سے مشاورت کی گئی اور ہر ایک چیز کو پرکھا گیا، الیکشن کمشن کے چاروں ممبران اور چیف الیکشن کمشنر نے حسن عسکری کے نام پر متفقہ طور پر اتفاق کیا۔ ترجمان الیکشن کمشن نے کہا الیکشن کمشن کسی دبا¶ میں آکر نہیں بلکہ میرٹ پر کام کرتا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت جانا ہے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ الیکشن کمشن نے حسن عسکری کا بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ہے کہ (ن) لےگ نے مےری تقرری کو چےلنج کر نا ہے تو کر دےں مجھے فرق نہےں پڑےگا ‘ میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، میں عام انتخابات تک تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاﺅں گا اور غیر جانبداری سے الیکشن کراﺅں گا ‘ پنجاب بڑا صوبہ ہے یقینا بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے، انتخابات صاف اور شفاف کراﺅں گا، کوئی جماعت پریشان نہ ہو، میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کروں گا۔ جمعرات کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ میری کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے ان کے مضامین کے حوالے سے سوال پر ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ مضامین کے نقاط کو کسی صورتحال پر لاگو نہیں کیا جا سکتا بلکہ کسی بھی شخص کے خیالات کسی بھی حو الے سے کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ کابینہ کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ مختصر اور پروفیشنل افراد پر مشتمل کابینہ ہوگی۔ مخالفین دوسروں کے بارے میں رائے دیتے رہتے ہیں۔ نگران وفاقی وزیر قانون بیر سٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پنجاب میں عام انتخابات حسن عسکری کے زیر نگرانی ہی ہونگے ان کے تجزیے اور تبصرے ان کو اس منصب کیلئے نا اہل نہیں کرتے‘ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی رہنماﺅں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائیگی‘ نگران حکومت کی ذمہ داری یہی ہوگی ایک پرامن ماحول میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروائے، نجی ٹی وی کو انٹروےو مےں نگران وزیر قانون نے کہا ہے کہ حسن عسکری کا نام حکومت، اپوزیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے اور اب آئین کے مطابق اس کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ حسن عسکری کو کسی طور پر پی ٹی آئی کا سپورٹر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اعتراض بلاجواز ہے۔ دوست محمد خان خیبر پی کے میں ہمارے نامزد کردہ نہیں تھے مگر ہم نے خیرمقدم کیا۔ شاہد خاقان عباسی کے بیان پر بہت حیرانی ہوئی۔ انتخابات کرانا الیکشن کمشن کا کام ہے۔ ن لیگ کو غیر جانبدار لوگوں پر اعتراض ہے۔
نگران وزیر اعلی
لاہور + اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ ن نے پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کو متنازعہ اور جانبدار شخصیت قرار دیتے ہوئے الیکشن کمشن کی جانب سے انہیں نگران وزیراعلی پنجاب بنائے جانے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے شدید اعتراضات کرتے ہوئے الیکشن کمشن سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے پروفیسر حسن عسکری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ازخود اپنا نام واپس لے لیں۔ گزشتہ روز مسلم لیگی رہنماﺅں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزراءاحسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق نے ایچ 180 ماڈل ٹاﺅن میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا حسن عسکری رضوی کو نگران وزیراعلی پنجاب نامزد کرنے کے فیصلے نے الیکشن کمشن اور پروفیسر حسن عسکری رضوی کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب، خرم دستگیر خان، رانا ثناءاللہ خان، ملک ندیم کامران، خواجہ عمران نذیر ودیگر موجود تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ نگران سیٹ اپ کسی جماعت کا طرف دار نہیں ہونا چاہئے جبکہ پروفیسر حسن عسکری رضوی جانبدار اور متنازعہ شخصیت ہیں اور مسلم لیگ ن کے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں وہ ان کے ٹی وی پروگراموں میں خیالات، اخبارات میں مضامین سے واضح ہے۔ وہ مارشل لا رولز کے حوالے دے کر عام انتخابات کو م¶خر کرنے کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر عرب نیوز میں پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جبکہ مریم اورنگ زیب نے پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کے اس طرح کے خیالات پر مبنی پانچ اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میڈیا کے سامنے پیش کئے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا آرمی چیف اور چیف جسٹس دونوں الیکشن میں التوا نہ چاہنے کے بینات دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حسن عسکری جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان کے مطابق پاکستان کی سیاسی قیادت الیکشن کے التوا میں کوئی خرابی نہیں سمجھتی حالانکہ ان کی بات غلط ہے پاکستان کے چوٹی کے تمام سیاسی قائدین بروقت الیکشن کروانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، آرمی چیف اور چیف جسٹس نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن میں التوا نہیں چاہتے۔ پروفیسر حسن عسکری کا کہنا ہے گرمی میں الیکشن کروانا مشکل کام ہو گا، مون سون بھی ہوتا ہے اور اس عرصے میں پاکستان میں الیکشن نہیں ہوتے۔ انہوں نے پہلے احتساب پھر الیکشن کے حق میں بات کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بطور نگران غیر جانبدار نہیں۔ ان کی نگران وزیراعلی پنجاب نامزدگی پورے انتخبی عمل کو مشکوک بنا دے گی۔ الیکشن کمشن کی ذمہ داری تھی کہ کس ایسے شخص کو نگران وزیراعلی بنائے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا شفاف الیکشن نہیں ہوں گے تو عوام رد کردیںگے۔ انہوں نے حسن عسکری کی نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمشن سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایسے شخص کو نامزد کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، تا کہ 25 جولائی کے الیکشن نہ صرف شفاف بلکہ شفاف ہوتا نظر بھی آئے۔ انہوں نے کہا حسن عسکری کی ٹویٹ بھی مسلم لیگ ن کے خلاف ہیں، نظر آ گیا ہے کہ الیکشن شفاف نہیں ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مسلم لیگ ن الیکشن لڑے گی چاہے ان کے مقابلے میں زمینی مخلوق آئے یا آسمانی مخلوق آجائے۔ احسن اقبال نے کہا 25 جولائی کو ہر قیمت پر الیکشن ہونا ملک کی ضرورت ہے۔ الیکشن کے التوا کی جو معاشی قیمت ہو گی وہ پاکسان ادا نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے کہا چاہے الیکشن متنازعہ ہو یا شفاف الیکشن ضرور ہو گا تاہم متنازعہ الیکشن ہوا تو پاکستان کے لئے زہر قاتل ہو گا۔ الیکشن کمشن کے اس فیصلے کے بعد ہم عوام کو کال دے رہے ہیں کہ ووٹ کی حفاظت کرو، ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال سکے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے پانچ سال ملک کی خدمت کی ہے۔ پاور پلانٹس لگا کر اندھیرے دور کئے اور روشنی دی ہے، دہشت گردی ختم کرکے امن قائم کیا ہے، کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا ہے، بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کیا ہے، فاٹا کو مین سٹریم میں لائے اور سی پیک کا پودا لگایا ہے جو اگلے 30 سال ہماری نسلیں کھائیں گی۔ آزادکشمیر، گلگت، بلتستان کو ترقیاتی پیکیج دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے اس کام کو روکنے کے لئے جو آئے گا اسے ہم ناکام بنائیں گے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے سیاسی تصورات اور نظریات واضح ہیں۔ ان کی جمہوریت مروجہ جمہوریت سے مختلف ہے۔ اس بارے میں ان کے5 کالم اور 50 مضامین سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پروفیسر حسن عسکری کو خود پیچھے ہٹ جانا چاہئے اور اپنا نام واپس لے لیں کیونکہ وہ غیر جانبدار بالکل نہیں ہیں۔ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا نے اپنے ردعمل میں کہا کہ حسن عسکری کی بطور نگران وزیراعلیٰ تقرری پر تحفظات ہیں، وہ مسلم لیگ (ن)کی قیادت کےخلاف باتیں کرتے رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حسن عسکری جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے، ان سے غیر جانبدار اور میرٹ پر کام کی توقع نہیں کی جا سکتی، بدقسمتی ہے جس شخص نے ایک سکول نہیں چلایا وہ صوبہ چلائے گا۔ سابق وزیر قانون نے کہا کہ حسن عسکری کی تقرری پر تحریری طور پر تحفظات سے آگاہ کردیا ہے، ان کے اقدامات کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی نے بھی نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی تقرری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب نے کہا ہے کہ (ن) لیگ اور تحریک انصاف نے نگران سیٹ اپ کو ساس بہو کے جھگڑے کا ڈرامہ بنا رکھا ہے، ایسی جماعتیں جن میں فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں وہ ملک کیسے چلائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات چوہدری منظوری نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا ۔ چوہدری منظور نے کہا کہ پنجاب میں آئینی عمل کو مذاق بنایا ہوا ہے، وفاق اور سندھ جہاں پی پی تھی وہاں معاملات احسن طریقے سے نمٹا دیئے گئے مگر جہاں جہاں (ن) لیگ اور تحریک انصاف کا زیادہ کردار تھا وہاں تماشا ہوا، ایسی جماعتیں جن میں فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں وہ ملک کیسے چلائیں گی، ان دونوں جماعتوں نے جمہوری اور سیاسی قوتوں کو بدنام کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی لاہور کے صدر عزیز الرحمن چن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نگران وزیراعلی پنجاب کے معاملے پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا، حسن عسکری کی تقرری پر تحفظات ہیں۔ جبکہ شعبہ خواتین پنجاب کی صدر ثمینہ گھرکی نے کہا کہ امید ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے لیکن نگران وزیراعلیٰ پنجاب پر تحفظات ہیں۔مسلم لیگ ن کے صدرشہبازشریف نے بھی نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے پروفیسر حسن عسکری کی نامزدگی کو مسترد کر دیا ہے۔ گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر انہوں نے لکھا ہے کہ الیکشن کمشن کا پروفیسر حسن عسکری کو نگران وزیراعلیٰ چننے کا عمل غیرجانبداری کے پیمانے پر پورا نہیں اترتا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پروفیسر حسن عسکری مسلم لیگ ن کے ناقد کے طور پر معروف ہیں اور مسلم لیگ ن کے ساتھ تعصب برتتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ عام انتخابات کے التواءکی وکالت کرتے رہے ہیں۔ ان کی نگران وزیراعلیٰ تقرری سے الیکشن کمشن کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پنجاب کے نگران وزیراعلی کے طورپر حسن عسکری کی تقرری پر اعتراض ا ٹھادیا ہے۔ ترجمان عوامی نیشنل پارٹی زاہد خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ حسن عسکری جمہوریت کے خلاف ہیں۔ حسن عسکری سے بہتر تھا کہ فواد چودھری کو پنجاب کا نگراں وزیراعلی بنا دیتے۔ کم از کم فواد چودھری جمہوری نظام پر تو یقین رکھتا ہے۔ الیکشن کمشن نے کیسے ایک متنازعہ شخص کو سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی نامزد کر دیا ۔کیا الیکشن کمشن ملک میں صاف شفاف انتخابات کراسکے گا؟۔ انہوں نے کہا ترجمان الیکشن کمشن کو کیا علم ملک میں الیکشن کیسے ہو گا۔ یہ سوچنا درست نہیں ہو گا کہ الیکشن کمشن ملک میں صاف الیکشن کراسکے گا۔الیکشن کمشن نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب حسن عسکری کی تعیناتی پر ن لیگ کے اعتراضات پر کہا ہے کہ نام فائنل کرتے وقت ن لیگ کے اعتراضات الیکشن کمشن کے سامنے نہیں تھے۔ کمشن نے چاروں ناموں پر ایک گھنٹہ مشاورت کی۔ مشاورت کے وقت ن لیگ کے اعتراضات نہ سامنے آئے نہ دائر کئے گئے۔ الیکشن کمشن ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ آئین کا آرٹیکل 229 اے الیکشن کمشن کو فیصلے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد الیکشن کمشن بھی چاہے تو اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کر سکتا۔علاوہ ازیں نجی ٹی وی سے گفتگو میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میں حسن عسکری کی سلیکشن پر سوال اٹھا رہا ہوں۔ الیکشن کمشن کے فیصلے سے انتخابات متنازعہ بننے کا امکان ہے۔ حسن عسکری کو چاہئے وہ خود پیچھے ہٹ جائیں۔ شفاف الیکشن کا جو مقصد تھا وہ فوت ہو گیا۔
تحفظات