ملک میں قانون بنانے کی صلاحیت ختم ہو چکی‘ مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے‘ قوم اختیار دے‘ ڈیمز بنانے کیلئے آگے بڑھیں گے : چیف جسٹس
کراچی (وقائع نگار+ صباح نیوز+ اے این این) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کالاباغ ڈیم بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے پانی کی قلت کے خاتمے کا تہیہ کرلیا۔ اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کریگی۔ آپ سب خطرہ محسوس نہ کریں، ہم کالا باغ ڈیم پر بات نہیں کر رہے، ہم چاہ رہے ہیں پانی کے مسائل پر بات ہو اور پانی بحران پر قابو پایا جا سکے، ہم نے پرویز مشرف کو آنے کو کہا تو اسکا بھی سب کو خطرہ ہو رہا ہے، پرویز مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے، پرویز مشرف آئیں اور قانون کا سامنا کریں، کسی کیلئے خطرے کی بات نہیں ہونی چاہیے، ہم کوئی اےسا حکم جاری نہےں کرےں گے جو کسی بھی فرےق کیخلاف ہو ےا کسی صوبہ کیخلاف ہو، سپریم کورٹ وفاق کی عدالت ہے، ہم جوڑنے کیلئے بیٹھے ہیں توڑنے کیلئے نہیں بیٹھے، ریفرنڈم عدالت نہیں وفاقی حکومت کرا سکتی ہے، ہمارے لئے آئین سپریم ہے اور آئین کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ سندھ میں 10 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن مجھے ایک بھی ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کراچی رجسٹری میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے عدالت کو کالا باغ ڈیم اور ملک میں پانی کی کمی سے متعلق بریفنگ دی۔ظفر محمود نے عدالت کو بتایا 90 سے 95 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے، موسمیاتی تبدیلی پر پاکستان میں سیلاب آنا شروع ہوئے۔ گلیشیر تیزی سے پگھلنا شروع ہوچکے ہیں، زیرزمین خطرناک حد تک نیچے جا چکا، کوئٹہ کا پانی اتنا نیچے جا چکا ہے بحالی میں 200 سال لگیں گے، انڈس واٹر معاہدے سے بھی خطرات ہوچکے ہیں، بھارت نے تین دریاﺅں راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر قبضہ کرلیا ہے۔ بھارت تسلسل کے ساتھ پانی بند کرنے کی کوشش کریگا، بھارت ہمیں پانی کے حوالے سے مزید تنگ کریگا، بھارت کے ڈیمز میں تکنیکی طور پر زیادہ پانی جمع کرنے کے ذرائع ہیں، جب سیلاب آتا ہے تو بھارت پانی چھوڑ سکتا ہے، ڈیمز بنانے سے متعلق ہم نے کوتاہی کی اور تمام حکومتیں ہی اس مجرمانہ غفلت کی ذمہ دار ہیں، لوگوں میں پانی کے استعمال اور بچت پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، صنعتوں سے متعلق کوئی مربوط پالیسی نہیں، صنعتی ماحول سے زیر زمین پانی بھی خراب ہو رہا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم اس وقت پاکستان میں کالا باغ ڈیم کے حق میں مکالمہ نہیں کررہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں پانی کی قلت کیسے ختم ہوگی، ہمیں معلوم ہے آئندہ وقتوں میں پانی کی اہمیت کیا ہوگی، 10 سال بعد کوئٹہ میں پینے کا پانی نہیں ہوگا اور لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنا پڑے گی، ہمیں معلوم ہے صنعتیں فضلہ صاف کرنے کے بجائے نالوں میں پھینک رہے ہیں، لاکھوں گیلن گندا پانی سمندر میں جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے عدالت عظمی کے روبرو کہا پانی کی قلت پر قابو پانے کے کئی حل موجود ہیں، جس میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کا منصوبہ شامل ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ منصوبے تو کاغذ پر تھے ہم نے نوٹس لیا تو کام شروع ہوا، آپ کی حکومت تو سندھ میں دس سال سے ہے مجھے ایک ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آیا۔ مجیب پیرزادہ ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا پوری قوم آپ کے ساتھ ہے اچھے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، کالا باغ ڈیم کا معاملہ متنازعہ ہوچکا ہے، چاروں صوبوں کے عوام نے کالا باغ ڈیم کے خلاف بات کی ہے، پانی کے بحران اور قلت پر کسی کو اعتراض نہیں مگر کالاباغ ڈیم کا نام جہاں آتا ہے تنازع کھڑا ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ وفاق کی عدالت ہے، ہم جوڑنے کیلئے بیٹھے ہیں توڑنے کیلئے نہیں، وعدہ کرتا ہوں سپریم کورٹ کوئی ایسا حکم نہیں دے گی جس سے کوئی فریق متاثر ہو، جہاں تنازع ہو اور چار بھائی متفق نہیں تو متبادل حل نکالیں، ہم آنے والی نسل کو اچھا مستقبل دے کر جائیں گے، آپ سب خطرہ محسوس نہ کریں، ہم کالا باغ ڈیم پر بات نہیں کر رہے، ہم نے کل پرویز مشرف کو آنے کو کہا تو اس کا بھی سب کو خطرہ ہو رہا ہے، پرویز مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے، پرویز مشرف آئیں اور قانون کا سامنا کریں، کسی کے لیے خطرے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے زندگی کے لیے سب سے زیادہ پانی کی اہمیت ہے، پانی نہیں تو زندگی کہاں رہے گی، ہمیں کوئی پالیسی بنانی ہوگی، ہم چاہ رہے ہیں پانی کے مسائل پر بات ہو اور پانی بحران پر قابوپایا جاسکے۔ پانی بحران دور کرنے کیلئے ایک ماہ پہلے پنجاب حکومت کو ہدایت دی تھی لیکن ہدایت کے باوجود پنجاب حکومت نے ایک ٹکے کا کام نہیں کیا، اب توجہ نہیں دیں تو حالات کبھی نہیں سدھریں گے، ہم نے پانی کی قلت کے خاتمے کا تہیہ کر لیا ہے، ہم ایک ٹیم بنا دیتے ہیں جس میں اعتزاز احسن اور دیگر ماہرین کی خدمات لیں گے۔ ملک میں قانون بنانے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، لاءاینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے قانون بنا کر پارلیمنٹ کو سفارش کی جاسکتی ہے، قوم اختیار دے تو سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور کردار ادا کرے گی، سیمینارز کے ذریعے پہلا قدم اٹھائیں گے، عید کے بعد سپریم کورٹ کا لا اینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سیمینار کرائے گا، ماہرین تجاویز دیں بیٹھ کر ایس او پیز بنائیں گے۔ ہم کراچی اور سندھ سے اس کا آغاز کریں گے، عدالت نے سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ صباح نیوز/ اے این این کے مطابق دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اس وقت پاکستان میں بحث کالا باغ ڈیم کی نہیں کر رہے ہم یہ دیکھ رہے ہیں پانی کی قلت کیسے ختم ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا بتایا جائے ملک میں ڈیمز کس طرح بنائے جائیں، آپ سفارشات دیں ہم پارلیمنٹ سے سفارش کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا ہمیں خود نمائی کرنے والے لوگ نہیں چاہییں، سیمینار کے ذریعے پہلا قدم اٹھائیں گے جس کا آغاز کراچی اور سندھ سے کریں گے۔دوران سماعت سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ بتائیں پانی کی قلت کیسے پوری کریں جس پر انہوں نے کہا کالا باغ ڈیم بنانے پر لوگوں کو مکمل آگاہی نہیں اور اسی تنازع کے بعد واپڈا کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیا تھا۔ ظفر محمود نے کمرہ عدالت میں پروجیکٹر کے ذریعے کالا باغ ڈیم پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا لوگوں میں پانی کے استعمال اور بچت پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، صنعتی ماحول سے زیر زمین پانی بھی خراب ہو رہا ہے۔ صنعتوں سے متعلق کوئی مربوط پالیسی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا معلوم ہے صنعتیں فضلہ صاف کرنے کے بجائے نالوں میں پھینک رہی ہیں، لاکھوں گیلن گندا پانی سمندر میں جا رہا ہے جس پر ظفر محمود نے کہا اس کا حل یہ ہے صنعتی فضلے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جائیں۔ قانون سب کے لےے اےک ہے لہذا سابق صدر بھی پاکستان آ کر قانون کا سامنا کر سکتے ہےں۔ چیف جسٹس نے کہا میری ریٹائرمنٹ کے بعد پتہ نہیں کیا ہوگا۔ کراچی میں صفائی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے عدالت سے استدعا کی کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا ریفرنڈم عدالت نہیں وفاقی حکومت کراسکتی ہے، ہمارے لیے آئین سپریم ہے اور آئین کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کالا باغ ڈیم سے متعلق درخواست پر سماعت ملتوی کردی جب آئندہ سماعت پر شمس الملک سے بریفنگ لی جائے گی۔ وقائع نگارکے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ میں فراہمی و نکاسی آب کے حوالے سے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کےلئے قائم جوڈیشل واٹر کمیشن کی مدت 15جنوری 2019 تک بڑھادی۔ پٹیشنر شہاب اوستو اور میئر کراچی وسیم اخترسمیت دیگر وکلاءاور افسران نے مطالبہ کیا امیرہانی مسلم کی مدت میں توسیع کردی جائے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا میں اپنی ریٹائرمنٹ کی مدت تک ہی توسیع دے سکتا ہوں، اسکے بعد آنے والے خود فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا میرے بعد آنیوالے مجھ سے بھی زیادہ قابل اور محنتی ججز ہیں۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تھر میں بچوں کی اموات کے حوالے سے ازخود نوٹس ، صنعتی، فضائی آلودگی سے متعلق کیس اورسرکاری گاڑیوں کی ریکوری کیس کی سماعت ہوئی عدالت نے تھرکے واقعہ کی رپورٹس طلب کرلی۔ صنعتی،فضائی آلودگی سے متعلق درخواست کی سماعت میں عدالت کا کہنا تھا صنعتی اورماحولیاتی آلودگی پورے ملک کا مسئلہ بن گیا۔ عدالت آئندہ سماعت پرچاروں ایڈووکیٹ جنرلزکو طلب کرکے تجاویز طلب کریگی۔ انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری کیس میں عدالت میں ڈاکٹرادیب رضوی کی سربراہی میں کمیٹی نے رپورٹ پیش کردی۔ عدالت نے رپورٹ وفاقی سیکرٹری صحت اورچاروں صوبوں کو بھجوا دی۔ عدالت کا کہنا تھا وفاقی اور صوبائی حکومتیں جائزہ لیں اورایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔سپریم کورٹ نے سندھ بھر میں تمام وی آئی پیز سے غیر ضروری سکیورٹی واپس لینے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے حکم دیا کہ کسی ایسے شخص کو سکیورٹی نہ دی جائے جسے قانون اجازت نہیں دیتا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے کہا4ہزار افراد کو سکیورٹی کیوں دی ہوئی ہے؟ خواجہ صاحب خدا کا خوف کریں۔اس پر آئی جی سندھ نے بتایا تمام وی آئی پیز سے اضافی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے، سکیورٹی مختلف افراد کو دی گئی ہے جنہیں قانون اجازت دیتا ہے۔چیف جسٹس نے شارع فیصل سمیت تمام شاہراہوں سے اشتہاری دیواروں کو گرانے کا حکم جاری کردیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں شہر میں اشتہاری دیواریں بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔درخواست گزار نے موقف اپنایا شہر بھر خصوصا کنٹونمنٹ بورڈز میں دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔چیف جسٹس نے دوران سماعت کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے سی ای او کو طلب کیا اور استفسار کیاکہ بتائیں کس نے یہ دیواریں بنائیں؟سی ای او کراچی کنٹونمنٹ نے عدالت کو بتایا بعض دیواریں دفاعی مقاصد کیلئے بنائی گئی ہیں البتہ کنٹونمنٹس نے اشتہاری کمپنیوں کونوٹس جاری کردیا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا نوٹس سے کچھ نہیں ہوگا کارروائی کریں۔ عدالت نے شارع فیصل سمیت تمام شاہراہوں سے اشتہاری دیواروں کو گرانے کا حکم دیا اور10 روز میں رپورٹ بھی طلب کرلی اور آئندہ اشتہاری مقاصد کے لیے دیواریں قائم کرنے پر پابندی عائد کردی۔
چیف جسٹس