الیکشن 2018 ء میں کسی طرح کی بڑی دھاندلی کا امکا ن نہیں: عرفان صدیقی
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم کے سابق مشیر اورملک کے نامور لکھاری عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف نے ’’تصادم‘‘ کی راہ نہیں اپنائی، اُنکے ساتھ روا سلوک کو البتہ ’’تصادم‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ نوازشریف کو جس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی دوسرے شخص کو درپیش ہوتے تو اسکا حوصلہ جواب دے جاتا۔ خلاف حقیقت ہے کہ میری تند وتیز تقاریر سے نوازشریف تصادم کی راہ پر چل پڑے۔ میاں صاحب کو اکثر میری تحریر کی نرمی کا گلہ رہتا تھا۔ سرکاری منصب سے فراغت کے بعد ’نوائے وقت‘ سے خصوصی تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ انتخابات سے پہلے دکھائی دے رہا ہے کہ ہانکا لگایا جارہا ہے۔ ہوا کے رُخ پر اُڑنے والے ’’پرندوں‘‘ کو اشارے مل رہے ہیں۔ ایک پارٹی سے لوگوں کو کاٹا، ایک پارٹی میں ڈالا جارہا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی نئی جتھہ بندیاں سامنے آئی ہیں۔ آزاد اراکین بھی بڑی تعداد میں لنگر لنگوٹ کس رہے ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ بھان متی کا ایک کنبہ تخلیق پارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وفاق کی بڑی جماعتوں کے پَر کاٹ کر اس طرح کے ’’خود معاملہ‘‘ سیاستدانوں اور موقع شناس قوتوں کیلئے ایسا بندوبست ہمیشہ پُرکشش رہا ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے حربے آزمائے جاتے رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ مسلم لیگ (ن) کو اس وقت بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ الیکشن ڈے پر کسی طرح کی بڑی دھاندلی کا امکان نہیں۔ اگرمسلم لیگ (ن) کی یہ عوامی حمایت اسی طرح قائم رہتی ہے تو کسی کیلئے بھی مرضی کے موسم تراشنا آسان نہ ہوگا۔ نواز شریف نامی شخص کے ساتھ کیا کچھ ہوا؟ اُسے عوام نے تین بار وزیراعظم بنایا، ایک بار بھی اُسے آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، اُسے اٹک قلعے کی کال کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا، اُسے ہتھکڑیاں ڈال کر طیارے کی سیٹوں سے باندھاگیا، اُسے ہائی جیکر قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی، اُسے سارے خاندان سمیت ملک بدر کردیاگیا، اُسے اپنے باپ کی میت قبر میں اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی، اُسے ایک مضحکہ خیز الزام میں وزارت عظمیٰ سے ہٹادیاگیا۔ اُسے عمر بھر کیلئے نااہل قرار دیدیاگیا، اُسے پارٹی سربراہی سے ہٹادیاگیا، اس پر بے ننگ ونام ریفرنسز بنادئیے گئے، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ 80 سے زائد پیشیاں بھگت چکا ہے، اُسے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا اہلیہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اسکے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ سلوک کیا محبت، مفاہمت، خیرسگالی اور ہمدردی کے زمرے میں آتا ہے؟ اس سلوک کو آپ ’’تصادم‘‘ کا نام کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) میں کوئی عقاب صفت گروپ موجود ہے تو میں ایسے کسی گروہ سے واقف نہیں۔ نہ ہی کبھی کسی نے میری موجودگی میں میاں صاحب سے لڑنے مرنے اور تلوار زنی کرنے کے لئے کہا۔ انہوں نے کہاکہ عام انتخابات انشاء اللہ 25 جولائی کو ہوں گے۔ اس پرقومی اتفاق رائے ہے۔ انتخابات میں التواء قوم وملک کے مفادمیںنہیں ہوگا۔ عرفان صدیقی نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) تمام تر دبائو اور جبر کے باوجود پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ نوازشریف نے اسے ایک پہچان دی ہے۔ حلقہ این اے 120 میں مریم نے تن تنہا اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلائی اور مشکل حالات میں ایک مشکل معرکہ سرکیا۔ سیاسی بیانیہ کیلئے بھی وہ اپنے والد کی توانا دست وبازو بنیں۔ وہ اس وقت نوازشریف کی سیاسی جانشین بن چکی ہیں۔ اگر دوآنچ کی کسر باقی ہے تو اُن پر قائم ریفرنسز یا متوقع سزائوں سے پوری ہوجائیگی۔ میاں نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان فاصلوں کی وجوہات کے بارے میں سوال پر عرفان صدیقی نے کہاکہ یقینا چوہدری صاحب کو کچھ شکوے ہوں گے، کچھ شکایتیں ہوں گی، کچھ رنجشیں ہوں گی، انکا جواز بھی ہوگا۔ وہ کھلے عام اپنے موقف کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، اسی طرح یہ گنجائش بھی دینی چاہئے کہ ممکن ہے نوازشریف صاحب کو بھی کچھ شکوے، کچھ شکایتیں، کچھ رنجشیں ہوں۔ نہ چوہدری صاحب اتنے سادہ ہیں کہ مصاحبین کی باتوں میں آئیں نہ میاں صاحب اتنے بھولے ہیں کہ اُنکے قریب رہنے والے اُنہیں ورغلا لیں۔ کچھ اسباب ومحرکات ایسے ضرور ہوں گے جن کے سبب فاصلے پیدا ہوئے۔ اُنکی ذمہ داری کسی ایک پر ڈال دینا مناسب نہیں ہوگا۔