غیر قانونی اثاثے واپس لائے جائیں : سپریم کورٹ‘ پاکستانیوں نے امارات میں 4240 ارب درہم سرمایہ کاری کی : ڈی جی ایف آئی اے
لاہور (وقائع نگار خصوصی+نیشن رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم پر اعتراض ہے نہ ہی اس میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک رقوم کی منتقلی اور اثاثہ جات کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی کامیابی کے حوالے سے استفسار کیا جس پر چیئرمین ایف بی آر نے موقف اختیار کیا کہ عوام ایمنسٹی سکیم کے خلاف سپریم کورٹ کے ممکنہ نوٹس کے خوف سے اس سکیم سے استفادہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے متعلق کوئی معاملہ سپریم کورٹ کے زیر غور نہیں اور نہ ہی عدالت کو ایسی کسی سکیم پر کوئی اعتراض ہے۔ اس موقع پر چئیرمین ایف بی آر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایک عالمی معاہدے کا حصہ بننے کے بعد پاکستانی حکومت رواں سال ستمبر سے دنیا کے ایک سو تین ممالک میں اپنے شہریوں کے بینک اکا¶نٹس کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے گی۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت سے بھی بات چیت جاری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ معاہدہ دس سال پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ حکومت نے فارن اکاﺅنٹس کو چیک کیوں نہیں کیا۔ افسران کیا پاکستان کے مالک تھے انہوں نے یہ سب چیک کیوں نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قرضہ لے لے کر ہم پانچ نسلوں کا رزق کھا گئے ہیں یہ واپس کون کرے گا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ایمنسٹی سکیم پر سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کرے گی، ایمنسٹی سکیم حکومت کی وجہ سے فیل ہوئی، چیف جسٹس نے بیرون ملک اکاﺅنٹس کا پتہ چلانے اور ملکی معیشت کی بحالی کے لئے گورنر سٹیٹ بنک اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کو قابل عمل تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ قرضے لے کر ہم نے آنے والی پانچ نسلوں کا رزق کھا لیا۔ عدالتی حکم پر گورنر سٹیٹ بینک نے پیش ہو کر بتایا کہ ملکی قوانین میں سقم موجود ہونے کے باعث بیرون ملک اکاونٹس تک رسائی میں رکاوٹ کا سامنا ہے، بیرون ملک ہم بین الاقوامی معاہدہ جات میں بندھے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ملکی ناقص پانی ساٹھ فیصد بیماریوں کی جڑ ہے، چیف جسٹس نے وفاقی سیکرٹری خزانہ سے استفسارکیا کہ پانی، تعلیم، صحت، ایجوکیشن کے لیے مختص رقم کافی ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے اعتراف کیا کہ یہ رقم کافی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکاﺅنٹس کی چھان بین کے لئے دنیا کے ایک سو تین ممالک کے ساتھ معاہدہ جات کئے جا رہے ہیں جن میں سوئٹزرلینڈ بھی شامل ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ڈیمز بنانے کی بات کی قوم تعمیر کے لئے پیسے دینے کو تیار ہے، قرضوں پر قرضہ لے کر سود دیا جا رہا ہے، پیسے واپس کس نے کرنے ہیں، بتایا جائے ملکی وسائل اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے، ملک میں سمگلنگ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، ملکی صنعتوں کو اٹھنے ہی نہیں دیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے تھنک ٹینک بنائے جائیں، اس حوالے سے لاءاینڈ جسٹس کمیشن کا پلیٹ فارم حاضر ہے۔ چیف جسٹس نے بیرون ملک اکاﺅنٹس کا پتہ چلانے اور ملکی معیشت کی بحالی کے لئے گورنر سٹیٹ بنک اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کو قابل عمل تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ایمنسٹی کے معاملے پر جسٹس عمر عطا بندیال فیصلہ لکھوائیں گے۔ آن لائن کے مطابق پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاو¿نٹس اور اثاثوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا ہے کہ پاکستانیوں کے جتنے بھی بیرون ملک غیرقانونی اکاﺅنٹس اور اثاثے ہیں، وہ واپس لے کر آئیں۔نیشن رپورٹ کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن نے بتایا کہ پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات میں 42.40 بلین درہم کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔
چیف جسٹس