عدالت عظمی نے شیخ رشید کو اہل قرار دیدیا‘ معاملہ فل کورٹ بھیجنا چاہیے : جسٹس قاضی فائز
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت ) سپریم کورٹ نے 2013ءکے انتخابات میں کاغذات نامزدگی میں درست اثاثے ظا ہرنہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے راہنما شکیل اعوان کی جانب سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی نااہلی کیلئے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے شیخ رشید کو اہل قرار دیدیا، جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے ایک کے مقابلے میں دو کے تناسب سے فیصلہ دیا ، فیصلے کے مطابق شیخ رشید 2018 کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے معاملے پرفل کورٹ تشکیل دینے کی سفارش کی ہے ،اور سات سوالات اٹھاتے ہوئے اٹارنی جنرل ،ایڈووکیٹ جنرلز ،اور الیکشن کمیشن کو جوابات دینے کی ہدایت کی ہے ،23 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے تحریر کیا ہے جس میں جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فیصلہ پڑھنے کے بعد اس پر دستخط کرنے سے قاصر ہوں، قاضی فائز عیسٰی نے تجویز دی کہ اپیل پر فل کورٹ کے فیصلے تک کوئی فیصلہ نہ دیا جائے، اگر یہ تجویز مان لی جائے تو یہ عمل 2018 الیکشن سے پہلے مکمل نہیں ہو سکتا، اعلیٰ عدلیہ سیاسی و قانون طور پر انتخابی عمل کا لازمی جزو ہے، قاضی فائز عیسٰی کی بات مان لی جائے تو انتخابی عمل کے دوران تنازعات پر فل کورٹ کے فیصلے تک طے نہیں ہو سکیں گے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان حالات میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن پر سوالات پیدا ہو جائیں گے، ان حالات میں آئندہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا بھی مشکل ہو گا، قاضی فائز عیسٰی کی تجویز سے پورا انتخابی عمل رسک پر ہو گا ۔عدالت عظمی کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے بحریہ ٹا¶ن کے گھر کی ادائیگی کم ظاہر کرنے کا سوال اٹھایا لیکن دیگر الاٹیز کی شیخ رشید سے زائد ادائیگی کے شواہد فراہم نہیں کئے گئے، شواہد نہ ہونے پر شیخ رشید کے بیان کو غلط بیانی قرار نہیں دیا جا سکتا، انہوں نے کاغذات نامزدگی میں گھر اور قیمت دونوں ظاہر کیں ہیں، ظاہر کیے گئے ذرائع آمدن کے علاوہ کوئی اکاﺅنٹ یا اثاثہ منظر عام پر نہیں لایا گیا،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شیخ رشید1081کنال زمین کے مالک ہیں، پرنٹڈ فارم میں غلطی سے 983کنال لکھا گیا، جائیداد کی الگ الگ تفصیلات میں پورے 1081کنال ظاہر کیے گئے ہیں ، شیخ رشید پر زرعی اراضی چھپانے کا الزام ثابت نہیں ہو سکا ، تحریری فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہیں شیخ رشید نے درخواست گزار کے الزام سے بھی زیادہ جائیداد ظاہر کی، زیادہ جائیداد ظاہر کرنے پر اثاثے چھپانے کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا ، جسٹس شیخ عظمت سعید نے فیصلے میں لکھا ہے کہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن میں بدانتظامی کے نقطہ پر بحث نہیں کی گئی۔ ٹریبونل فیصلہ کے خلاف اپیل میں ٹھوس مواد موجود نہیں تھا، سپریم کورٹ نے شیخ رشید کو الیکشن کےلئے اہل قرار دیتے ہوئے شکیل اعوان کی درخواست مسترد کردی۔ جسٹس شیخ عظمت کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سجاد علی شاہ نے 20 مارچ 2018 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں شیخ رشید کو نااہل قرار نہ دیتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ نے سات قانونی سوالات اٹھائے ہیں ، جسٹس قاضی فائز نے لکھا ہے کہ انتخابی تنازعات کے حوالے سے مختلف عدالتی بنچوں نے اپنی مختلف آرا کا اظہار کیا ہے، اس معاملہ کے جلد حل کی ضرورت ہے۔ قانونی بے یقینی سے انتخابی عمل کی ساکھ کو نقصان ہو سکتا ہے، ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا چاہیے کہ مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک ہو تا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے اختلافی نوٹ میں سات سوال اٹھائے ہیں ،جن میں پہلا سوال ہے کہ کیا کاغذات نامزدگی میں ہر غلط بیانی کا نتیجہ نااہلی ہے؟دوسرا سوال کہ کیا آرٹیکل 225 کے انتخابی تنازعات میں آرٹیکل 184/3 کا اطلاق ہو سکتا ہے؟تیسراسوال کہ کیا 184/3 میں آرٹیکل 62-1ایف کے تحت نااہل کیا جاسکتا ہے؟چوتھا سوال کہ کیا آرٹیکل 62/1ایف کے کورٹ آف لاء کے ذکر میں سپریم کورٹ بھی شامل ہے؟پانچواں سوال؛ کہ کیا عدالتی کارروائی کے دوران ظاہر ہونے والی غلط بیانی کو نااہلی کے لیے زیر غور لایا جاسکتا ہے؟چھٹا سوال کہ کیا کسی شخص/امیدوار کی انتخابی عذر داری کو عوامی مفاد کا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے؟معاملہ عوامی مفاد کا ہو تو کیا شواہد فراہمی کے قوانین کا اطلاق ہو گا؟اور ساتواں سوال کہ غلط بیانی پر نااہلی کی مدت تاحیات ہو گی یا آئندہ الیکشن تک؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ یہی سوالات اسحاق خان خاکوانی کیس فیصلے میں بھی اٹھائے گئے تھے، ان سوالات کے جواب کافی عرصے سے نہیں آئے،معاملے کے حتمی حل کے لیے ان سوالوں کے جواب میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے،ان سوالات کے ذریعے آئین اور عوامی نمائندگی قوانین کی تشریح ہونی ہے،اٹارنی جنرل ، ایڈوکیٹ جنرلز ان سوالات کے جوابات دیں، چیف جسٹس ا±ف پاکستان ان سوالات پر فل کورٹ تشکیل دیں۔اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پانامہ کیس میں قرار دیا گیا نااہلی کے لیے عدالتی ڈیکلریشن ضروری ہے،آرٹیکل 62/1ایف میں لفظ متعلقہ عدالت تحریر کیا گیا ہے، متعلقہ عدالت میں سپریم کورٹ شامل نہیں ہے۔کیا آرٹیکل 184/3 کا استعمال کر کے کسی کو 62/1 ایف کے تحت نااہل کیا جاسکتا ہے؟ اختلافی نوٹ کے مطابق آئین کا آرٹیکل 225 انتخابی تنازعات کے لیے مخصوص ہے۔کیا انتخابی تنازعات کو عوامی اہمیت کی کٹیگری میں شامل کیا جاسکتا ہے،چیف جسٹس ان 7 سوالوں کے جواب کے لئے سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیں، اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانونی بے یقینی سے انتخابی عمل کی ساکھ کو نقصان ہو سکتا ہے، ہمیں اس تاثرکو ختم کرنا چاہیے کہ مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک ہو تا ہے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی نااہلی کےلئے دائر لیگی رہنما شکیل اعوان کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اپنے ردعمل میں کہا جس فیصلے کو انہوں نے سیاست بنانا چاہا وہ ان کی سیاسی موت بن گیا ہے۔فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید نے کہاکہ آج دنیا میں پاکستانی سوئے نہیں بلکہ میرے لیے دعائیں کیں۔مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے سربراہ عوامی مسلم لیگ نے کہا کہ جس فیصلے کو انہوں نے سیاست بنانا چاہا وہ ان کی سیاسی موت چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ جو میری سیاسی موت دیکھ رہے تھے، میں ان کی سیاسی زندگی دیکھنا چاہتا ہوں۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر میرے خلاف بھی فیصلہ آتا تو میں قبول کرتا، میں نواز شریف نہیں۔ انہوں نے 22 تاریخ کو لیاقت باغ میں حلقہ این اے 60 کا جلسہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔شیخ رشید نے کہاکہ میں بڑا عاجز، مسکین اور عام قسم کا آدمی ہوں۔ اللہ نے آج مجھے پھر عزت دی ہے۔میں اپنے وکیل رشید اعوان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ این اے 60 اور 62 میں آج قلم دوات جیت گئی ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور اپنی زندگی میں کوئی چیز نہیں چھپائی۔ میری ساری دولت راولپنڈی کی ہے اور میں راولپنڈی کا ہی ہوں۔شریف برادران پر تنقید کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف میں آرہا ہوں اور عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت بناو¿ں گا۔انہوں نے کہا کہ بدمعاشوں، چو لٹیروں، منی لانڈرز کے لیے شیخ رشید سیاسی موت ثابت ہوگا۔انہوںنے کہاکہ 3 ماہ میں راولپنڈی میں جتنا جوا کھیلا گیا، میں سی پی اور ڈی سی او کو 72 گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں کہ وہ تمام غریبوں کے پیسے واپس کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ قابل احترام ہیں، لیکن جس طرح ان کے سوالوں کو اچھالا گیا، فرق صرف اتنا تھا کہ میرا ایک ساتھی ایک ہندسہ ہاتھ سے جمع کررہا تھا۔اپنے حق میں فیصلہ آنے پر ان کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ن لیگی رہنما شکیل اعوان نے کہا شیخ رشید کی غلطی تسلیم کرنے کے باوجود اس طرح کا فیصلہ آیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے۔ میرے کیس کا فیصلہ 85 دن محفوظ رہا جب کہ شیخ رشید نے عدالت میں تسلیم کیا کہ اس نے غلطی کی جس کے باوجود سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی اہلیت کے حق میں فیصلہ آیا۔(ن) لیگی رہنما نے کہا کہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے تاہم جب تک انصاف نہیں ملے گا عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے۔شیخ رشید احمد نے نجی ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا اقامہ ہے نہ ہی میرا نام پانامہ ہے۔ میں مفاہمت کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ میں نے مریم صاحبہ پر بھی تبصرہ نہیں کیا۔ چودھری نثار نہیں ہوں کہ بولوں کہ نہ بولوں۔ قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر انتخاب لڑوں گا۔ شریف خاندان کی حکومت بنتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔
شیخ رشید