نوازشریف‘ مریم کو حاضری سے 4 روز کا اسثنی‘ خواجہ حارث دوبارہ پیروی پر تیار
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+نوائے وقت رپورٹ) احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ، العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو حاضری سے 4 دن کا استثنیٰ مل گیا جبکہ خواجہ حارث دوبارہ نواز شریف کی قانونی ٹیم میں شامل ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔ سماعت سے قبل جب خواجہ حارث عدالت پہنچے تو جج محمد بشیر اور نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے انہیں خوش آمدید کہا گیا۔ سماعت کے آغاز میں خواجہ حارث نے عدالت میں درخواست جمع کرائی اور استدعا کی کہ ان کی وکالت چھوڑنے کی درخواست کو منظور نہ کیا جائے کیونکہ وہ دوبارہ اس کیس کی وکالت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جج محمد بشیر نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنی وکالت نامے والی درخواست واپس لے رہے ہیں؟۔ ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ وکالت نامہ واپس لینے والی آپ کی درخواست خارج کر دی ہے۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہم نے تو مخالفت بھی نہیں کی، پھر بھی درخواست خارج ہوگئی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پہلے ایک اور درخواست دینی ہے، بطور وکیل موقف اپنانا میرا حق ہے، ہمیں بھی معلوم ہوجائے گا کہ کیس اکٹھے چلیں گے یا علیحدہ۔ خواجہ حارث نے اپنی درخواست عدالت میں پڑھ کر سنائی، جس میں انہوں نے اپنے تحفظات پیش کیے۔ انہوں نے جج کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ہی بتا دیں کہ اس کیس کی کارروائی کو کیسے آگے چلانا ہے، ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جائے، ہم سب کو ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے۔ خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ہر چیز کے لیے قانون ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے ہفتے کو بھی عدالت لگانے کا کہا، یہ کون سا قانون ہے؟ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ رول آف لاءمیں عدالتی وقت اور چھٹیاں مقرر کر دی گئی ہیں اور عدالتی وقت کے بعد یا چھٹی کے دن عدالت کارروائی نہیں چلاسکتی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی کارروائی میں تیاری کے لیے ہزاروں صفحات پڑھنے پڑتے ہیں، اگر عدالتی وقت کے بعد بھی کارروائی چلائی گئی تو اگلے دن کی تیاری نہیں ہوسکے گی اور بغیر تیاری عدالت آنا میرے موکل کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔ خواجہ حارث نے ایون فیلڈ ریفرنس کے سلسلے میں اپنے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔ خواجہ حارث نے عدالت کے روبرو کہا کہ نیب کو 6 ہفتوں میں جے آئی ٹی کے اکٹھے کیے گئے مواد پر ریفرنس فائل کرنے کا کہا گیا اور کہا گیا کہ نیب یا ایف آئی اے کے پاس شواہد ہیں تو انہیں ریفرنس کاحصہ بنایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتساب عدالت میں کیس پر ٹرائل جاری ہے، سب ملزمان پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے لیکن کوئی شواہد پیش ہی نہیں کیے گئے کہ کرپشن ہوئی یا نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ان کے موکل پر عائد فرد جرم میں کہا گیا کہ آپ پبلک آفس ہولڈر ہیں اور لندن فلیٹس آپ کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی فیملی اور زیرکفالت کا لفظ بہت اہم ہے۔ خواجہ حارث کے مطابق فردجرم میں کہا گیا کہ نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لندن فلیٹس کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ اس کے ساتھ ہی خواجہ حارث نے ضمنی ریفرنس پڑھا اور کہا کہ کیس یہ بنایا گیا کہ نواز شریف نے بطور پبلک آفس ہولڈر زیر کفالت، بے نامی کے نام پر لندن فلیٹس بنائے۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بے نامی الگ چیز ہے اور زیر کفالت الگ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فرد جرم سب ملزمان پر اکٹھا عائد کیا گیا۔ خواجہ حارث کے مطابق ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف نے حسین نواز کے نام پر لندن فلیٹس خریدے۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ خود کنفیوز ہے کہ کیس ہے کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت میں ٹرائل جاری ہے، مگر اینکرز ٹی وی پر بیٹھ کر کیس پر تبصرے کرتے ہیں، کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ دلائل کے دوران عبوری ریفرنس پر بات کرتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ عبوری ریفرنس میں بھی لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس کی تفتیش کا کہا، یہاں پر بھی لفظ تفتیش استعمال ہو رہا ہے، عبوری ریفرنس میں لکھا ہے کہ جے آئی ٹی نے تفتیش کرکے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی، یہاں پر بھی جے آئی ٹی سے متعلق لفظ تفتیشی رپورٹ استعمال ہوا۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 4 ہفتوں میں کیس کا ٹرائل مکمل کیا جائے، ہمارے پاس 19 دن باقی رہ گئے ہیں، جتنا کچھ ہوسکا ہم کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہفتے اور اتوار کا دن نکال دیا جائے تو دن کم رہ جاتے ہیں، کیا ممکن ہے کہ اتنے کم دنوں میں شہادتیں بھی ریکارڈ ہوں اور تینوں ریفرنسز کا فیصلہ بھی ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت آج (20 جون) تک کے لیے ملتوی کردی۔ خواجہ حارث نے دوران درخواست جمع کرائی جس میں استدعا کی گئی کہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے جس کی وجہ سے وہ لندن میں ہی کچھ روز قیام کریں گے اور اسی لیے انہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 روز کے لئے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے تاہمم احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے 4 روز کیلئے استثنیٰ دیدیا۔ خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کیس ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں دستاویزات کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ جج محمد بشیر نے باور کروایا کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کی کارروائی کرنے کے طریقہ کار کو وکیل خواجہ حارث پر چھوڑ دیا ہے۔ خواجہ حارث نے جج محمد بشیر سے دریافت کیا کہ وہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے سنائیں گے یا پھر پھر نواز شریف کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ دیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ استغاثہ نے 9 ماہ گزر جانے کے باوجود تینوں ریفرنسز میں اپنے شواہد پیش کرنا ختم نہیں کیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس کے التوا کا ذمہ دار وہ استغاثہ کو نہیں ٹھہرائیں گے کیونکہ یہ بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے اس لیے تمام ریفرنسز کی سماعت اس طرح کی جانی چاہیے کہ مقررہ وقت تک تمام ریفرنسز کی سماعت مکمل ہوجائے۔واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ، کینسر کے مرض میں مبتلا اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں احتساب عدالت نے نوازشریف کے بیان کے کچھ حصوں کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ احتساب عدالت نے کہا ہے کہ نوازشریف کے بیان کے کچھ حصے غیرمتعلقہ ہیں۔ نوازشریف کے فیصلے کے خلاف تنقید کو ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ نوازشریف نے اپنے بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔ نوازشریف کے صفائی کے بیان پر عدالتی حکم جاری کر دیا گیا۔حسین نواز نے کہا ہے کہ احتساب عدالت نے چار روز کا عدالتی استثنیٰ دیا ہے جو انتہائی دکھ کی بات ہے جبکہ میری والدہ وینٹی لیٹر پر ہیں، آپ سب جانتے ہیں میری والدہ کی جمہوریت کیلئے کیا خدمات ہیں، ہارلے کلینک لندن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے حسین نواز نے کہا کہ معلوم نہیں کون ابہام پیدا کر رہا ہے، میری والدہ کی حالت نازک ہے ہم تکلیف میں ہیں، لوگوں کی ایسی باتیں سن کر دکھ ہوتا ہے۔ حسین نواز میڈیا سے گفتگو کرتے آبدیدہ ہو گئے۔
نوازشریف استثنیٰ