• news

سندھ : کوئی گورننس نہیں‘ تھر میں بچے حکومتی غفلت سے مرے : چیف جسٹس لگژری گاڑیوں کے استعمال کا نوٹیفکیشن معطل

کراچی (وقائع نگار+ صباح نیوز+ آن لائن) چیف جسٹس ثاقب نثار نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں گورننس نام کی کوئی چیز نہیں۔ بدھ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں مٹھی تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے سابقہ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجی ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق تھر میں بچوں کی اموات حکومت کی غفلت سے ہوئیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سندھ میں گورننس نام کی کوئی چیز نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہاں ہیں؟ وہ کراچی میں ہیں تو انہیں بلاکر کارکردگی کا پوچھیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس طرح مراد علی شاہ کی کارکردگی ہے کیا وہ اگلا الیکشن بھی لڑرہے ہیں؟ سندھ اور دیگر صوبوں کی کارکردگی میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے عدالت میں بتایا چیف سیکرٹری میری سنیں تو میں کچھ کروں۔ سارا نظام تباہ ہے، اکیلا کیا کرسکتا ہوں؟ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ آپ سے اوپر کون ہے؟ صوبے کے وزیراعلیٰ کے اوپر کون تھا؟ صوبے کے سب سے بڑے سے تو آپ کی رشتہ داری ہے،کیا انہیں صورتحال بتائی؟ غریبوں کے بچے مر گئے ان کا کیا کریں گے؟ جسٹس ثاقب نثار نے سیکرٹری صحت سے مکالمہ کیا کہ سب ذمہ داری آپ کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سندھ آتا ہوں تو واضح فرق نظر آتا ہے، سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے ذمہ داری ادا نہیں کی، ذمہ داری ادا نہ کرنے والا الیکشن کیلئے کیسے اہل ہو سکتا ہے ؟ سپریم کورٹ نے تھرپارکر میں حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ایڈیشنل آئی جی ثنا ءاللہ عباسی پر مشتمل کمشن قائم کردیا اور ثنا اللہ عباسی کو حکومتی اقدامات اور غفلت کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ ثنا اللہ عباسی کو نواب شاہ میں بچوں کی ہلاکتوں کی بھی انکوائری کا حکم دیدیا گیا متاثرین نے کہا نواب شاہ میں چھ بچے جلدی امراض سے ہلاک ہوئے، چیف جسٹس نے کہا ان غریبوں کو کیا ریلیف دیں ؟؟ کیا انہیں مقدمہ دائر کرنے کا کہیں تاکہ ان کی دو نسلیں بھگتیں ؟ سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا بے نظیر آباد ہسپتال میں ایمرجنسی قائم کردی ہے۔ انہوں نے کہا بے نظیر آباد میں بچوں کی ہلاکت کی انکوائری اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا اور عدالت کا سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری دو ماہ میں فعال کرنے کا حکم دے دیا۔ دریں اثناءسرکاری زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے معاملے کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 21 سال سے جج ہوں سب پتہ ہے کیا کیسے ہوتا ہے۔ زمینوں کی لیز اور الاٹمنٹ کو شفاف بنائیں گے۔ کسی کو زمین لیز یا الاٹ کرانا ہے تو اوپن آکشن میں جائے۔ آپ لوگوں کو اوپن آکشن میں جانے میں کیا مسئلہ ہے۔ یہ سب اس وقت کے معاہدے ہیں جب بندر بانٹ ہوتی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 30 سال فائدہ اٹھا لیا۔ اب اوپن آکشن میں جائیں۔ کیا 5 لاکھ روپے فی ایکڑ لیز پر تیار ہیں۔ دیکھنا ہوگا ان زمینوں کی موجودہ قیمت کیا ہے۔ عدالت نے انرجی ڈیپارٹمنٹ کیلئے 524ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ روک دی۔ سندھ بھر میں سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ اور لیز کی تفصیلات طلب کر لی گئیں۔ عدالت نے کہا کہ شفافیت کے بغیر کسی کو زمین الاٹ نہیں ہونے دیں گے، جس نے آکشن میں حصہ نہیں لیا اس کا کوئی حق نہیں۔ سپر ہائی وے پر پولٹری فارم کیلئے چار ایکڑ زمین فی ایکڑ پانچ لاکھ روپے میں لیز دینے کی اجازت دے دی گئی۔ عدالت نے چالیس سے زائد درخواستوں پر رپورٹس طلب کرلیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق سندھ حکومت کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں کوئی کام ٹھیک بھی ہو رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو نے لگژری گاڑیوں کے استعمال کا سرکاری نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 149 لگژری گاڑیاں تحویل میں لے لی ہیں۔ فیلڈ ورک اور خصوصی مقاصد کے لیے لگژری گاڑیاں استعمال کی جا سکیں گی۔ گاڑیوں کے استعمال کے لیے یومیہ 25 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ چیف جسٹس نے لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے اب سندھ حکومت نے کرائے پر گاڑیاں دینا شروع کردیں۔ سندھ میں کوئی کام ٹھیک بھی ہو رہا ہے۔ یہ سب بدنیتی کی بنیاد پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے تحت وزرا پھر سارا دن یہ گاڑیاں استعمال کر سکیں گے۔ وزرا کو پجارو سے کم گاڑی پسند ہی نہیں آتیں۔ عدالت نے لگژری گاڑیوں کے استعمال کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے لگژری گاڑیوں سے متعلق صوبوں کی درخواستیں اسلام آباد میں یکجا کردیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام صوبوں کا معاملہ اسلام آباد میں سنیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے آئل ٹرمینل کو 15 روز میں شیریں جناح کالونی سے ذوالفقار آباد منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے میئر کراچی سے استفسار کیا کہ میئر صاحب، کتنے نالوں کی صفائی ہوچکی؟ بتائیں کس نالے کا دورہ کرا رہے ہیں؟ اس پر وسیم اختر نے کہا کہ سر نہر خیام چلتے ہیں۔ وسیم اختر نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار آباد آئل ٹرمینل کا ایک سال قبل افتتاح ہوچکا، آئل ٹینکر مالکان جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مئیر کراچی کے جواب پر صدر ٹینکرز ایسوسی ایشن یوسف شہوانی نے مو¿قف اپنایا کہ ہم جانے کے لیے تیار ہیں، میئر جھوٹ بول رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے یوسف شہوانی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا آپ کا میئر ہے، عزت سے بات کریں۔ یوسف شہوانی نے عدالت کو بتایا کہ 200 ایکڑ میں سے ہمیں صرف 130 ایکڑ اراضی دی گئی۔ اس پر چیف جسٹس نے وسیم اختر سے پوچھا کہ کام مکمل کیوں نہیں ہوا؟ میئر کراچی نے بتایا کہ کام مکمل ہوچکا ہے، چاہیں تو ناظر سے معائنہ کرالیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 15 دن بعد کوئی ٹینکر شیریں جناح کالونی میں کھڑا نہیں ہوگا اور آئل ٹینکر والوں نے ہڑتال کی تو سب کو اندر کردیں گے۔ عدالتی حکم پر یوسف شہوانی نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میاں صاحب آپ کے پاس ہر قسم کی حجت ہے، خدا کا خوف کریں کچھ حب الوطنی پیدا کریں۔ عدالت نے میئر کراچی اور ضیاء اعوان کو ذوالفقار آباد ٹرمینل کا معائنہ کرکے صورتحال سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔ مزید برآں 12 مئی سانحے کی تحقیقات سے متعلق درخواست میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے 12 مئی کیس سماعت کے لئے خصوصی دو رکنی بنچ تشکیل دے دیا کیس کی سماعت جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل بنچ کرے گا عدالتی معاونین کے عدم حاضری پر عدالت برہم ہوئی پولیس کی جانب سے کیس کی تفصیلات پیش کی گئی کراچی کے مختلف تھانوں میں 12 مئی کیس کی 54 ایف آئی آر درج ہوئیں عدالت نے پولیس کی پیش کردہ رپورٹ مسترد کردی عدالت نے 22 جون کو سی سی پی او کراچی اور اے آئی جی لیگل سے تفصیلات طلب کر لیں اور دریافت کیا بتایا جائے کہ ٹرائل کورٹس میں مقدمات کی کیا پوزیشن ہے۔ درخواست میں سابق صدر پرویز مشرف، بانی ایم کیو ایم، سابق مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل عام کیا، بارہ مئی 2007ءکو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا راستہ روکنے کیلئے دہشت گردی کی گئی، دہشت گردی کے واقعات میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے، سانحہ کی از سر نو تحقیقات کرائی جائے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہر خیام کراچی کا دورہ کیا۔ میئر کراچی نے چیف جسٹس کو صفائی سے متعلق آگاہ کیا۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کتنے روز میں نہر کی حالت بدلیں گے۔ میئر کراچی نے جواب دیا کہ سر 3 سے 4 ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی جلد از جلد نالے کی حالت بدلیں۔ میئر کراچی نے کہا کہ نالوں پر تعمیرات کی گئیں چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس نے تعمیرات کیں، انہیں توڑا کیوں نہیں گیا؟ میئر کراچی نے کہا کہ نہر خیام پر تعمیر عمارت مسمار کرنے کیلئے آپریشن کیا تو اسے روک دیا گیا تھا۔ سی جے نے سوال کیا کہ آپریشن کیوں روکا تو میئر کراچی نے کہا کہ بڑے لوگ پیچھے ہیں دھمکیاں آتی ہیں۔ سی جے نے کہا کہ کون لوگ پیچھے ہیں دھمکیوں سے نہ ڈریں نہر پر موجود تعمیرات کو فوری طور پر گرائیں، نالے کے اطراف کوئی تجاوزات نہیں ہونی چاہئیں، قانون کے مطابق جو غیر قانونی تعمیرات کیں اسے ہٹائیں۔ سی جے نے نہر خیام کے اطراف تمام غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کا حکم دیدیا۔ سی جے نہر خیام دورے کے بعد منظور کالونی بھی گئے۔ دریں اثناءدرآمد کردہ کوئلے کو کراچی پورٹ پر آف لوڈ کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی سپریم کورٹ نے کوئلہ کے بحری جہاز کراچی پورٹ پر اتارنے پر پابندی عائد کر دی۔ عدالت نے شہر بھر میں کھلے عام کوئلہ ذخیرہ کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ چھ ہفتے میں تمام جہاز پورٹ قاسم پر اتارنے کے انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ شہر میں کوئلہ اتار کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی فیصلے خوش ہو یا ناراض، انصاف کریں گے۔ کوئلے نے جو آلودگی پھیلائی سرمایہ کاروں کو اس کی پرواہ نہیں۔ کراچی کے عوام کو آلودگی میں نہیں رہنے دوں گا۔ کسی کو احساس ہے کوئلے کی راکھ سے کیا بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ کسی بھی قیمت پر کوئلے کے جہاز کراچی پورٹ پر نہیں اترنے دوں گا۔ مزید برآں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لارجر بنچ نے سندھ پولیس میں جعلی بھرتیوں کے معاملے پر سماعت کے موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ تمام پولیس افسران کے خلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہے صرف 8 افسران کے خلاف انکوائری کا عمل التواءکا شکار ہے جو جلد مکمل کیا جائے گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت نے جعلی بھرتیوں میں ملوث افسران کے خلاف رپورٹ جمع کرا دی ہے لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش نہیں کی گئی، عدالت کا ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ ان تمام پولیس افسران کے خلاف کارروائی سپریم کورٹ کے حکم کے تحت کی جائے۔ عدالت نے معاملے پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو طلب کرتے ہوئے سماعت 28 جون تک ملتوی کر دی۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاﺅن میں 6 سال کی بچی رابعہ کے قتل سے متعلق بھی کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔ بچی کے ورثاءنے عدالت کو بتایا کہ پولیس ملزموں کو گرفتار نہیں کر رہی اور بااثر افراد دھمکا رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے آجی جی سندھ امجد جاوید سلیمی سے کیس سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔


چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن