• news

اخباری تنظیمو ں کیخلاف اقدامات قابل مذمت، صحافیوں پر حملے بند کئے جائیں: انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ

لاہور (خصوصی رپورٹ) آئی پی آئی پاکستان کی اخباری تنظیموں کے خلاف اقدامات کی مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے صحافیوں کے خلاف حملے بند کئے جائیں۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (I.P.I) آزادی صحافت کیلئے ایڈیٹرز، اخباری منتظمین اور ممتاز صحافیوں پر مشتمل ایک عالمی تنظیم ہے جس نے ایک بیان میں پاکستان میں آزادی صحافت کو دبانے کیلئے جابرانہ اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس سلسلے میں آئی پی آئی نے وزیراعظم پاکستان جسٹس نصیر الملک، چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار، چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا، چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمن کے نام اپنے خطوط میں 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل آزادی صحافت کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی ہے جن میں اختلافات رائے رکھنے والے صحافیوں پر تشدد، اغواء اور جسمانی ایزارسانی کے ساتھ ساتھ آزاد اخبارات کی ترسیل اور تقسیم میں رخنہ اندازی کے ذریعے عوام کے حقوق کی جبری نفی اور آزاد ٹی وی چینلز کو بلاک کر کے ناظرین کے حقوق کو پامال کرنا شامل ہیں۔ ان خطوط میں ملک کے آئین میں درج جمہوریت اقدار کو درپیش خطرات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آئی پی آئی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرائنفی نے ان خطوط میں جو مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بھی بھیجے گئے ہیں، کہا ہے کہ یہ اقدامات عوام کے خبر دار اطلاعات تک رسائی اور مفادعامہ سے متعلق مباحث میں شرکت کے بنیادی حقوق کی نفی کرتے ہیں باربراٹرائفی نے ایسے متعدد واقعات کی نشاندہی کی ہے جو انکے مطابق مجوزہ انتخابات کے پس منظر میں دیکھے جانے چاہئے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق 06 جون کو ممتاز خاتون صحافی گل بخاری کو رات دیر گئے نوائے گروپ کے دفتر آتے ہوئے اغواء کیا گیا اسی رات ایک اور ٹی وی صحافی اسد کھرل کو لاہور میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنا یا گیا مزید براں مسلح افواد کے ISPR کے ڈائریکٹر جنرل ممتاز اور متحرک صحافیوں پر مشتمل فہرست جاری کی جو انکی نظر میں ریاست مخالف عناصر ہیں۔ متعدد اخباری ایڈیٹروں کو اختلاف رائے رکھنے والے مواد کو اخبارات میں شائع نہ کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں بعض کالم نگاروں کے پاس یہ مواد سوشل میڈیا پر جاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ آئی پی آئی کے مطابق اخبارات کی تقسیم اور ترسیل جن میں ڈان، جنگ اور دی نیوز کی سرکولیشن شامل ہیں روکنے کی کوشش مزید تکلیف دہ اقدامات ہیں اخبری رپورٹس کے مطابق بڑے شہروں کے رہائشی علاقوں، درمیانی شہروں اور خاص طور پر فوجی چھائونیوں اور فوجی انتظامیہ کے تحت رہائشی سوسائٹیوں جن میں بڑی تعداد میں سول آبادی رہتی ہے میں اخبارات کو سرکولیشن روکی جارہی ہے اس طرح کے اقدامات میں پیمرا سے منسلک کیبل آپریٹر کے ذریعے جیو اور ڈائون کے نشریات کو اپنے ناظرین تک پہنچانے سے روکا جا رہا ہے۔ باربرا ٹرائنفی نے کہا ہے آئی پی آئی کو کو اس امر پر گہری تشویش ہے اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں کو سوشل میڈیا پر جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ آئی پی آئی نے اپنے خطوط میں کہا ہے کہ ایسا ماحول مجوزہ انتخابات کیلئے اطلاعات تک رسائی اور جمہوریت کی ضرورت کے منافی ہے۔ خطوط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اگر میڈیا میں رپورٹنگ پر اثر انداز ہونے والے اقدامات، اخبارات کو آزادی سے شائع ہونے اور ٹی وی چینلز کو بلا خوف نشریات کرنے میں حائل رکاوٹوں کو روکنے کیلئے فوری اقداملات نہ کئے گئے تو مجوزہ انتخابات کی ساتھ پر شکوک مرتب ہونگے باربرار ٹرائنفی نے وزیراعظم ، چیف جسٹس،چیف الیکشن کمشنر اور سیاسی جاعتوں کے سربراہان سے مطالبہ کیا ہے کہ آزاد صحافت کو درپیش بگڑتے ہوئے ماحول کو ٹھیک کرنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن