• news

پٹرول پر ٹیکس لگا کر لوگوں کو پاگل کر دیا‘ حساب دینا ہو گا: چیف جسٹس

کراچی ( وقائع نگار+صباح نیوز+ آئی این پی+آن لائن) سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس میں سیکرٹری پٹرولیم، سیکرٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر کو آج (جمعہ کو) طلب کر لیا۔ عدالت نے پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ، 6ماہ کے آکشنز اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی مانگ لیا۔ جمعرات کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کر دیا، کس بات کا ٹیکس ہے، سب کو حساب دینا ہوگا۔ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کس طریقہ کار کے تحت 62.8روپے فی لٹر کا تعین کیا گیا؟ ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ مختلف ادارے 300ارب روپے کے نادہندہ ہیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان اداروں سے 300ارب روپے واپس کیوں نہیں لے رہے؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرض لے کر معاملات چلا رہے ہیں۔ یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ بینکوں سے 95 ارب روپے قرض لے رکھا ہے۔ ہر سال 7 ارب بینک سود کی مد میں جاتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ گھر بیٹھے بیٹھے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ سارا حساب دینا ہو گا۔ دریں اثناء چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے منچھر جھیل کی صفائی نہ ہونے اور گندے پانی کے اخراج پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری آب سے کہا کہ آپ نے 14.5 ارب روپے میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا، سمندر کا جو حال دیکھا ہے وہ افسوسناک ہے۔ سماعت کے آغاز پر سندھ واٹر کمشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس پر عدالت نے کمشن کی کارکردگی کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور کمشن کو ماہانہ کارکردگی رپورٹس پیش کرنیکا بھی حکم دیا۔سیکرٹری آب نے عدالت کو بتایا کہ منچھر جھیل سے یومیہ 300 ملین کیوسک پانی ملتا ہے۔ چیف جسٹس نے منچھر جھیل کی صفائی نہ ہونے اور گندے پانی کے اخراج پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری آب سے کہا کہ آپ نے 14.5 ارب روپے میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ سمندر کا جو حال دیکھا ہے وہ افسوسناک ہے۔ بوتلوں اور غلاظت کا ڈھیر ہے، روزانہ 450 ملین گیلن سیورج سمندر میں جارہا ہے۔ 10 سال سے حکومت نے کیا کام کیا؟ اب سپریم کورٹ خود مانیٹر کرے گی۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ٹینکرز مافیا سے کراچی کے عوام کی جان چھڑائیں گے۔ کراچی کے شہریوں کو ہر حال میں صاف پانی دینا ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اشتہاری دیواروں سے متعلق نوٹس کی سماعت بھی ہوئی جس سلسلے میں عدالت کے طلب کرنے پر کنٹونمنٹ بورڈ اور آ ئو ٹ ڈور اشتہارات ایسوسی ایشن کے نمائندے پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے کنٹونمنٹ بورڈ سے استفسار کیاکہ کراچی میں لگی اشتہاری دیواروں کا کیا بنا؟ اس پر حکام نے بتایا کہ اکثر دیواریں گرادی گئی ہیں۔ شاہراہ فیصل پر بھی کنٹونمنٹ کی حدود میں بنی دیواروں کو گرادیا گیا ہے۔اس موقع پر آ ئو ٹ ڈور ایڈورٹائزرایسوسی ایشن کے عہدیداران نے کہا کہ ہمارے 15 ارب روپے لگے ہیں اس کا کوئی میکنزم بنائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایسی کوئی اجازت نہیں دے سکتے، آپ لوگوں نے من مانی جگہوں پر کھمبے اور بورڈز لگاکر کراچی کا بیڑہ غرق کردیا تھا۔ آپ اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہیں، جاکر کوئی اور کاروبار کرنے کا سوچیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے شہر میں دفاعی اعتبار سے تعمیر کی گئی دیواروں سے بھی اشتہارات ہٹانے کا حکم دیتے ہو ئے درخواستیں نمٹا دیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ لوگوں نے قرضے لے کر معاف کرادیے، سپریم کورٹ چاہتی ہے پاکستانی قوم مقروض نہ رہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں۔لارجر بینچ نے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ لوگوں نے قرضے لے کر معاف کرادیے، قرضے معاف کراتے وقت ایسے مظلوم بن جاتے ہیں جیسے ان کے پاس روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں،آج اگر ان کے خلاف تحقیقات کرالوں تو ان کے پاس بی ایم ڈبلیو، وی ایٹ اور ناجانے کون کون سی گاڑیاں نکلیں گی، قرضے معاف کرانے والوں نے اپنی زندگی بنا کر عاقبت خراب کرلی، میں نہیں سپریم کورٹ چاہتی ہے یہ قوم مقروض نا رہے، ایک وقت بھی جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے، میں اس ملک کے لیے وکلا سے پیسے لوں گا اور اپنے پلے سے بھی دوں گا، میں نے سوچ رکھا ہے اس ملک پر سب نچھاور کرنا ہے، سماعت کے دوران کے الیکٹرک کے چیف ڈسٹریبیوشن افسر نے عدالت کو بتایا کہ کے الیکڑک بجلی کی استعداد میں اضافہ کے لیے اقدامات کر رہی ہے, بہتری کے لیے سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں, اس موقع پر معاون عدالت فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں, کے الیکٹرک استعداد بڑھا رہی ہے نہ ہی لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوئی, نیپرا نے کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کیا مگر اس کے باوجود صورتحال نہیں بدلی,کے الیکٹرک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ طلب 3500 میگا واٹ جبکہ 2950 میگا واٹ مل رہی ہے, 3 کیٹیگری میں لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں, علاقے کے لحاظ سے 3, 6 اور ساڑھے 7 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کر رہے ہیں, جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ کنڈا سسٹم نہیں نظام ٹھیک نہ کرنا ہے, چیف جسٹس نے الیکٹرک حکام سے استفسار کیا کہ بتائیں بوسیدہ نظام کی بہتری کے لیے کیا کچھ کیا, جب تک آپ کے عملے کی معاونت نہ ہو بجلی چوری نہیں ہو سکتی, پنجاب میں 4 ارب لگے مگر پانی کی ایک بوند نہیں ملی, سپریم کورٹ کا مزاج لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے, ہم یہاں لوگوں کو سہولتیں دینے کے لیے بیٹھے ہیں,کے الیکڑک لکھ کر دے اب پلانٹ بند نہیں ہوں گے, یاد رکھیں اگر اب پلانٹ بند ہوئے تو سخت کارروائی کریں گے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں ان کا کیا قصور ہے جو بل ادا کر رہے ہیں انہیں بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہے۔ نیپرا نے لکھا لیاقت آباد 14 گھنٹے، اورنگی، کورنگی میں 18,18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر عدالت نے کے الیکڑک، حیسکو سے ایک ہفتے میں حلف نامے طلب کر لئے۔ مزید برآں سپریم کورٹ رجسٹری کراچی کے طلبہ کیس کی سماعت ہوئی۔ سیکرٹری پی ایم ڈی سے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ سیکرٹری پی ایم ڈی سی نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان کے 194 میں سے 169 طلباء کو داخلے مل چکے ہیں، ہیلتھ سائنس یونیورسٹی لاہور نے بلوچستان کے طلباء کو داخلہ دینے سے انکار کیا ہے۔ بلوچستان کے طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کیا ہے۔ بلوچستان کے طلباء کو داخلہ نہ دینے پر چیف جسٹس نے یونیورسٹی انتظامیہ پر اظہار برہمی کیا۔ سپریم کورٹ نے یونیورسٹی میں طلباء کو فوری داخلہ دینے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اپنے بچوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ عدالتی حکم نہ ماننے والے کالجورں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے، صرف ایک کالج سے بچوں کے 29 کروڑ واپس کرائے، ملک بھر کے میڈیکل طلباء و طالبات کا معاملہ اسلام آباد میں سن رہے ہیں۔ کوئی متاثرہ طالب علم چاہے تو اسلام آباد میں پیش ہو سکتا ہے۔ عدالت نے سیکرٹری پی ایم ڈی سی کو میڈیکل کالجز سے متعلق کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

ای پیپر-دی نیشن