• news

نیب ریفرنسز : نوازشریف کی ایک ساتھ حتمی دلائل کیلئے درخواست غیر موثر قرار

اسلام آباد (وقائع نگار) سابق وزیراعظم نواز شریف کی احتساب عدالت میں زیرسماعت تین ریفرنسز میں ایک ساتھ حتمی دلائل سے متعلق اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ نے غیر م¶ثر قرار دے کر نمٹا دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا نواز شریف کے وکیل ایون فیلڈ ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز کر چکے ہیں اس لئے درخواست گزار کی اپیل غیر م¶ثر ہو چکی ہے۔ اس موقع پر نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا احتساب عدالت نے کہا تھا تینوں ریفرنس میں ایک ساتھ فیصلہ ہو گا لیکن اب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس پہلے مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہائیکورٹ نے نواز شریف کے تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ کرنے کی درخواست غیرم¶ثر قرار دیتے ہوئے احتساب عدالت کو اپنی معمول کی کارروائی جاری رکھنے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(نامہ نگار)شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں جاری ہے، جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل چوتھے روز حتمی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں اور نہ ہی ان کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ جمعہ کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی ۔ سماعت کے دوران خواجہ حارث نے حتمی دلائل کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا، جہاں گذشتہ روز ٹوٹا تھا اور کہا کہ استغاثہ کو لندن فلیٹس کی ملکیت بھی ثابت کرنا تھی۔ خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ ان کے موکل لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں اور نہ ہی ان کا ان سے کوئی تعلق ہے۔پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا استغاثہ کے گواہ تھے اور ان کا بیان دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جس متفرق درخواست اور طارق شفیع کے بیان حلفی پر استغاثہ انحصار کر رہی ہے، اس میں نواز شریف کا کہیں ذکر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کے مطابق 1973 میں وہ 19 سال کے تھے، جب میاں شریف انہیں دبئی لے کر گئے اور 1974 میں گلف سٹیل مل بنائی گئی۔خواجہ حارث کے مطابق طارق شفیع کے دوسرے جمع کرائے گئے بیان حلفی میں بھی نواز شریف کا کہیں ذکر نہیں، جو متفرق درخواستیں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں جمع کرائیں وہ استغاثہ ریکارڈ پر نہیں لائی۔ خواجہ حارث نے کہا استغاثہ کا انحصار دبئی سٹیل مل کے معاہدے پر ہے، اس میں سب کردار ہیں مگر نواز شریف نہیں۔ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 1978 کے اس معاہدے کا ایک صفحہ غائب ہے۔جس پر عدالت نے نیب کو تفریق شدہ صفحہ جمع کرانے کا حکم جاری کردیا۔خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ طارق شفیع کے مطابق 1978 میں نواز شریف نے دبئی اٹیل مل کے 751 شیئرز فروخت کیے جبکہ 1980کے معاہدے میں نواز شریف نے خود کو گلف سٹیل مل سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ یہ دستاویزات استغاثہ کی ہیں، اس کے مطابق نواز شریف کا کیسے ان سے تعلق جڑتا ہے؟خواجہ حارث نے حتمی دلائل کے دوران مریم اور حسین نواز کے درمیان کومبر گروپ ٹرسٹ ڈیڈ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی تیسرا شخص نہیں اور اس ٹرسٹ ڈیڈ کا بھی نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں جڑتا۔کہا جاتا ہے کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای سے ان کے موکل نے تنخواہ لی، اس کا ایون فیلڈ سے کیا تعلق ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی تنخواہ 2008 کا معاملہ ہے، تنخواہ وصولی کی کوئی دستاویز نہیں بلکہ سکرین شاٹ دیا گیا اور اگر تنخواہ وصول بھی کی تو اس سے ایون فیلڈ کا کیا تعلق بنتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی جے آئی ٹی نےکوئسٹ سالیسٹر کو کیوں ہائر کیا؟خواجہ حارث نے کہا کہ آج میں نے استغاثہ کی پیش کردہ 81 دستاویزات کا جائزہ لیا ہے،ان میں سے اگر کوئی ایون فیلڈ سے متعلقہ ہے تو وہ شیزی نقوی کا بیان حلفی ہے۔ انہوں نے کہا نواز شریف کا حدیبیہ کے قرض اور ڈیل وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے سٹیفن مورلے ایکسپرٹ رپورٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا اسٹیفن مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق اپنی رائے دی، لیکن ان کی رائے کا نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں، اگر وہ بطور گواہ کٹہرے میں آجائیں تو بہت بہتر ہوگا۔خواجہ حارث کے مطابق سٹیفن مورلے کہتے ہیں ۔ انہوں نے عمران خان نیازی کی ہدایت پر حسین نواز اور مریم نواز سے متعلق ایکسپرٹ رائے تیار کی، اس رائے کا بھی نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ اسٹیفن مورلے سے سوال جواب اور ان کی رائے میں کہیں بھی نواز شریف کا ذکر نہیں۔خواجہ حارث نے مزید کہا کہ استغاثہ نے دو چارٹ ایک صفحے پر دیئے، اس پر بعد میں لڑیں گے کہ علیحدہ علیحدہ کیوں نہیں دیئے، لیکن اس میں بھی ایون فیلڈ کا ذکر نہیں بلکہ نیلسن اور نیسکول کا بھی ذکر نہیں۔دلائل کے دوران خواجہ حارث نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا جواب بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
احتساب عدالت

ای پیپر-دی نیشن