پارٹی کے اندر بھی حزب اختلاف ہونی چاہئے
چودھری نثار جیسے لوگ ہر سیاسی پارٹی میں ہونے چاہئیں۔ مجھے چودھری نثار کی باتیں مزا دیتی۔ اب زعیم قادری نے بھی کمال کر دیا ہے۔ جمہوریت کے لیے بظاہر جدوجہد کرنے والے اپنی پارٹی کے اندر اپنی آمریت کو اپنے کارکنوں کے سروں پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اپنے لیڈر کے لیے جائز مخالفت بھی بغاوت سے کم نہیں سمجھی جاتی۔ پارٹی کے باہر لوگوں اور سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی اور ذرا سی بات کو برداشت نہ کرنے والے اپنی جماعت میں اپنے سینئر کی ہر جائز ناجائز بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ بلکہ اسے حکم کا درجہ دیتے ہیں۔ آمرانہ رویے کو بھی جمہوری سمجھنے والے لوگ لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے ہی کارکنوں پر حکومت کرتے ہیں۔
زعیم قادری کے اس انداز کو تحریک انصاف کے لیڈر عبدالعلیم خان نے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ہے۔ آج کل علیم خان سیاسی معاملات کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ بیانات آج کل ان کی طرف سے آتے ہیں۔ وہ بہت متحرک ہیں۔ ایسے لوگ عمران خان کے لیے غنیمت ہیں۔
نواز شریف تو نااہل ہیں۔ شہباز شریف جب پاکستان میں نہیں ہوتے تو سب کچھ حمزہ شہباز کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ن لیگ کے مخلص اور سینئر لوگ بہت مشکل میں ہیں۔ قیادت کا ایک تقاضا ہے کہ آدمی دوستوں اور کارکنوں کو اپنے ساتھ لے کے چلے مگر جتنی آمریت اور فرعونیت سیاسی پارٹیوں کے اندر ہوتی ہے جو اقتدار لیڈر آج کل اقتدار میں نہیں ہیں۔ انہیں اقتدار کا کچھ تو مزا لینا ہے اور وہ صرف اپنی پارٹی کے لوگوں سے وصول کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نہ ملے تو کیا کریں۔ پارٹی کے لوگ کس کے لیے ہیں انہیں اپنا غلام بنا لو۔
غلامانہ ذہنیت آخر کس کام آئے گی۔ ان کی موجودگی میں ہمارے کئی سیاسی لوگوں کی قیادت نیم زندہ رہتی ۔ انہوں نے اقتدار کے لیے ترجیحات متعین کر رکھی ہیں۔ اوپر نواز شریف اور نیچے شہباز شریف مگر نواز شریف تو نااہل ہو گئے ہیں۔ اب مریم نواز ان کی جگہ آ سکتی ہیں۔
مگر اس میں ایک مشکل بھی ہے کہ کیا شہباز شریف کو وزیراعظم بننے دیا جائے گا؟ شریف فیملی میں ایک انڈر سٹینڈنگ ہے کہ اوپر تم نیچے ہم مگر یہ مجبوری دیر تک ساتھ نہیں دے گی۔ بھٹو بننے کی کوشش نہ کریں۔
پہلے نواز شریف نجانے کیا سوچ رہے تھے۔ نااہل ہونے کے بعد بھی ان کی سوچ نہیں بدلی۔ میرا خیال ہے کہ اب خاندانی یا موروثی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
زعیم قادری نے ن لیگ میں رہ کر بھی بڑی دلیری اور خلوص سے اپنی جماعت کے وقار کا خیال رکھا ہے مگر اب بغاوت کی ہے اور وہ بغاوت کی طرح کی ہے۔ میں نے کبھی انہیں وڈیرے کے روپ میں نہیں دیکھا۔ ہمیشہ دوستوں کی طرح دکھائی دیے۔
احسن اقبال ایک پورے جینٹل مین ہیں۔ ان سے ملاقات ہے۔ وہ صدر جنرل ضیاالحق کے زمانے میں اپنی والدہ کے حوالے سے متعارف ہوئے۔ ان کا گھرانہ بڑی عزت کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ وہ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ جس بھی کابینہ میں گئے اس کے لیے اعزاز بن گئے۔
میں دو ایک بار نارووال گیا ہوں۔ ان کے ساتھ ایک سرحدی آبادی شکر گڑھ میں بھی گیا ہوں۔ وہاں ایک شاعر دوست ندیم صاحب بہت دل والے اور محبت کرنے والے آدمی ہیں۔ ایک خاتون پروفیسر ثوبیہ خان ہیں۔ اچھی شاعرہ ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا اور پڑھنے والوں میں بہت پسند کیا گیا ہے۔ اس کا نام بھی بہت انوکھا اور خوبصورت ہے۔ ”کبھی دیکھ پلٹ کے“ دیکھنا اور مڑ کے دیکھنا ایک معروف بات ہے۔ مگر پلٹ کے دیکھنا بہت ہی بامعنی اور خوبصورت ہے۔ شکر گڑھ کے ندیم صاحب نے ان کے ساتھ مجھے متعارف کرایا۔ وہ خود بھی اچھے شاعر ہیں۔ بڑے شہروں سے دور مضافات میں رہنا اور اتنی اچھی شاعری کرنا کمال ہے۔
٭٭٭٭٭