بارش کے پہلے قطرے کے بعد بھی بارش نہیں ہوئی
میرا خیال ہے اب نوازشریف کی جگہ شہبازشریف لے رہے ہیں تو شہبازشریف کی جگہ لینے کیلئے حمزہ شہباز تیار ہو گئے ہیں۔ بہت اہم سیاستدان عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ زعیم قادری بارش کا پہلاقطرہ ہے اس کی پریس کانفرنس بڑی دھواں دار تھی۔ زعیم قادری کی اہمیت دیکھیں کہ چودھری غفور نے اپنی باغیانہ پریس کانفرنس سے پہلے ان سے ملاقات کی۔
زعیم قادری بارش کا پہلا قطرہ ہے تو بارش کب ہو گی بات بڑی ذومعنی علیم خان نے کی ہے۔ زعیم قادری پہلے اپنی پریس کانفرنس میں بہت غصے میں تھے۔ مگر اب چپ ہو گئے ہیں۔ بڑھکیں مار کے فوراً خاموشی کی گود میں چلے جانا عجیب لگتا ہے۔ ایک جملہ زعیم قادری بھی سنیں”بچے اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں ایک خرابی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں“ ۔ بھائی زعیم ابھی اتنے بڑے بھی نہیں ہوئے تو اب وہ کہاں جائیں گے۔
سنا ہے کہ ناراض کارکنوں کو منانے کا ٹاسک حمزہ نے پرویز ملک کو دیا ہے۔ اس معاملے میں بہت زبردست سیاسی خاتون شائستہ پرویز ملک بھی پرویز ملک کی نگرانی کر رہی ہیں۔ میری گزارش اس اچھی خاتون سے یہ ہے کہ وہ نگرانی کریں .... حکمرانی نہ کریں۔
٭....٭....٭....٭
چودھری محمد سرور اب اپنی پارٹی بنانے والے ہیں۔ وہ دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور تحریک انصاف کو اندر جا کے دیکھ چکے ہیں اپنی پارٹی کا نام ”آرائیں پارٹی“ رکھیں گے۔انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور میں زیادہ تر آرائیں الیکشن لڑ رہے ہیں وہی چودھری سرور کی قیادت میں آ جائیں گے۔ آرائیں پارٹی بن گئی؟ اس کے صدر خواہ مخواہ چودھری سرور ہی ہونگے۔
٭....٭....٭....٭
کسی خلائی مخلوق کا ذکر نوازشریف کرتے ہیں اس بارے لوگ غور کر ہی رہے تھے کہ نوازشریف کے دوست خواجہ آصف سیالکوٹی نے کسی بیت الخلائی مخلوق کی طرف اشارہ کردیا ہے مگر خواجہ صاحب کے علاوہ انہیں کون پہچان پائے گا۔ لگتا ہے کہ خلائی اور بیت الخلائی مخلوق میں وہ فرق نہیں کرتے۔ سنا ہے خواجہ صاحب نوزشریف اور پھر خاقان عباسی کے دور میں وزیر خارجہ بھی رہے ہیں اب ان کی نظر وزارت عظمیٰ پر ہے۔ نوازشریف سے بھول ہو گئی۔ ورنہ عباسی صاحب کی بجائے خواجہ صاحب اس نام نہاد عہدے کیلئے زیادہ موزوں تھے۔اب سیالکوٹ صرف خواجہ صاحب کی سلطنت نہیں ہے۔وہاں ڈار فیملی بہت مضبوطی سے اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ غالباً عمر ڈار کا نام اخبارات میں آتا رہتا ہے۔ خواجہ آصف ڈار وہاں وچھڑی کونج بن کے رہ گئے ہیں اور وہاں بہت بڑی سیاستدان فردوس عاشق اعوان بھی ہے۔ مگر میں تو سمجھتاہوں کہ سیالکوٹ کی ایک بستی چونڈہ ہے یہاں پاک بھارت لڑائی ہوئی تھی ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی۔ چونڈہ کی رہنے والی ایک بڑی خاتون شکیلہ قریشی سے میری بات فون پر ہوتی رہتی ہے۔ وہ پنجابی کی بے پناہ شاعرہ ہے اور دانشور بھی ہے۔
روحانیت کے ساتھ اس کا بڑارشتہ ہے ایسا رشتہ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا روحانیت بھی ایک بہت بڑی سلطنت ہے اور ہر کسی کی اپنی اپنی سلطنت ہوتی ہے۔
شکیلہ قریشی ایک بے پناہ خاتون ہے اس کی خالص اور گہری پنجابی زبان میں کی گئی شاعری اور باتیں دل میں اترتی اور کچھ دیر بعد لطف آتا ہے۔ یہ نشہ کسی بھی چوٹی اور سرخوشی سے بہت بلند ہے وہ ایم اے انگریزی ہے اس کا مطالعہ بہت مختلف سا ہے۔ وہ فطرت کائنات کے رازوں سے باخبر ہے بلکہ وہ اہل خبر میں سے ہے۔ اس کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ گاﺅں میں رہنے والی کسی خاتون کا وژن اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے خواب اور خواہشیں دوسری عورتوں جیسی نہیں ہیں وہ ایک انوکھی زندگی جی رہی ہے۔
اس نے ٹیلی فون پر ہی باتیں میرے ساتھ کی تھیں۔ میں حیران ہوگیا۔ اس کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ کس کا....؟ مجھے معلوم نہیں۔ شکیلہ کو معلوم ہے مگر وہ بتائے گی نہیں ۔خود میری طرف سے شکریہ ادا کرے گی۔ حیران ہوئے بہت دن ہو جاتے ہیں۔ اب تو میں اسے فون کر لیتا ہوں۔ یا مجھے وہ فون کر لیں وہ کہتی ہے کہ میں میل فی میل کے چکروں سے بہت آگے جا چکی ہیں میری ملاقات اس کے ساتھ نہیں ہوئی مگر اس کے بارے میں پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔
٭٭٭٭٭