• news

ڈیم ملکی بقا کیلئے ضروروی ہیں‘ چاروں بھائیوں کو قربانی دینا ہو گی : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانی کی قلت کے پیش نظر کالا باغ سمیت ملک میں ڈیموں کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر انا کی نذر ہوگئی ہے ہم نے چاروں بھائیوں کو توڑنا نہیں جوڑنا ہے، اگرکالا باغ ڈیم کی تعمیر سے وفاقی اکائیوں کے اتحاد پر بُرے اثرات پڑتے ہیں تو دوسری جگہوں پرڈیم بنانے کے آپشنز غور کرنا ہو گا، پانی پاکستان کی بقاءکا مسئلہ بن چکا ہے اس معاملے کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر درخواست گزار وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفراللہ نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر موفف اپنایا کہ پہلے تمام صوبوں نے کالا باغ ڈیم پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم بعد میں اس ڈیم کی تعمیر پر اختلافات پیدا ہوگئے، جس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار سے کہا کہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے، اس لئے ہم نے سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک اور اعتزاز احسن کو اس کیس میں ہماری معاونت کرنے کا کہا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا پانی کے بغیر پاکستان کی بقا ممکن ہے ہرجگہ پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطر ناک حد تک گر چکی ہے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کے مسئلے کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ۔ فاضل چیف جسٹس نے واضح کیا کہ بار بار کہہ رہا ہوں کہ میں یہاں کالا باغ ڈیم کی نہیں پاکستان ڈیم کی بات کر رہا ہوں، پاکستان ڈیم نہیں بنائے گا تو سوچ لیں کہ 5 سال بعد ملک میںپانی کی صورتحال کیا ہوگی، ڈیمز پاکستان کی بقا کے لئے نہایت ضروری ہیں، کالاباغ ڈیم نہیں تو پاکستان ڈیم نام رکھ لیں۔ جس پرچاروں بھائیوں میں اتفاق ہونا چاہئے، چاروں بھائیوں کو ڈیمز بنانے کے لئے قربانی دینا ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب زمین بنجر ہوگی تو کسان مقروض ہو جائے گا، اس صورتحال کے پیش نظر ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اس سنگین معاملے پرلوگوں کو اکٹھا کیا جائے تاکہ ان کی تجاویز آئیں، ہم سب کو مل بیٹھ کر اس ایشو کا حل سوچنا ہوگا۔ سماعت کے دوران ڈیموں کے معاملے پر عدالتی معاون اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ موجودہ صورتحال میں ڈیموں کے مخالفین سے بھی بات کرنا ہوگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ جو ڈیم متنازعہ نہیں پہلے ان پر فوکس کیا جائے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سابقہ ادوار میں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا، بتایا جائے کہ سابقہ حکومتوں نے گزشتہ دس سال میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے کیا کیا ہے ڈیم تو ہر حال میں بنانا ہوں گے، لیکن دیکھنایہ ہے کہ ڈیمز کن جگہوں پر بنیں گے، مجھے مسئلے کا حل بتایا جائے ، جب تک مسئلے کا حل نہیں نکلتا میں نے آپ لوگوں کو جانے نہیں دینا، عدالت کو ماہرین کے نام بتائے جائیں ، میں سب کو بلا کر بٹھاں گا تاکہ کم از کم اس مسئلے پر گفت و شنید شروع کی جاسکے، سماعت کے دوران سابق چیرمین واپڈا شمس الملک نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ڈیم بنانا چیف جسٹس کا کام نہیں، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ چیف جسٹس کے علاوہ کوئی دوسرا انصاف نہیں کرسکتا، ان کا کہناتھا کہ دنیا میں کل 46 ہزار ڈیم تعمیر ہو چکے ہیں، جن میں سے صرف چین میں 22 ہزار ڈیم بنائے گئے ہیں، چین کا تھری گارجیز نامی ڈیم 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ بھارت اب تک 4500 ڈیم تعمیر کرچکا ہے۔ لیکن یہاں کی صورتحال سب کے سامنے ہے ، پانی ارسا کی ملکیت ہے ، تربیلا ڈیم کے پی کے میں ہے ،تربیلا پانی کی تقسیم کے مطابق کے پی کے کو 4فیصدپانی دیا جاتا ہے۔ بلوچستان کو 6 فیصد۔ پنجاب کو 20فیصد۔سندھ کو 7فیصد پانی دیا جاتا ہے، متعلقہ افراد صرف کھوکھلی باتیں کرتے ہیںسچ کو دبایا جاتا ہے،کالا باغ ڈیم بننے سے صرف 30فیصد آبادی جو دولاکھ بنتی ہے متاثر ہوگی کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ تین اسمبلیاں کالا باغ ڈیم کے خلاف قراردادیں پاس کرچکی ہیں اگر پالیسی میٹر کہا جائے تو یہ ان کی ذمہ داری تھی جو پوری نہیں کی گئی۔ واپڈا کے سابق آفسر امتیاز قزلباش نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ آفسران پانی کے معاملے پر ملک کو نقصان پہچایا ، دیگرز ڈیم بنانے تھے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا کالا باغ کے علاوہ بھاشا، داسو، منڈا، سمیت 8ڈیم پر اتفاق ہوا جونہیں بنائے گئے ، کالاباغ ڈیم پر اگر اتفاق نہیں ہوتا تو دیگرڈیم بنائے جاسکتے ہیں فاضل عدالت اپنی نگرانی میں بحث کروائے وہ ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کہ چاروں بھائیوں کو ڈیمز کی تعمیر کیلئے قربانی دینا ہوگی، ہم نے پانی کے مسئلے کو حل کرنا ہے، کیونکہ ڈیمزپاکستان کی بقا کے لئے نہایت ضروری ہیں، ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اس معاملے پرکام کرنا ہوگا۔یہ پالیسی میٹر نہیں پانی کا تعلق عام انسان سے ہے بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکل 184/3کے تحت سپریم کورٹ معاملے سن سکتی ہے ، عدالت حکومت کو ڈائریکشن جاری کرے گی یہ بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکل کے تحت اجتماعی مفاد کا معاملہ ہے ،عدالت متعلقہ افراد کی کمیٹی بناکر بحث کرے کے معاملے کا قابل عمل حل نکالے گی۔بعدازاں مزید سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔بعدازاں چیف جسٹس کی سربراہی میں پانی کے مسلے پر متعلقہ افراد کی ایک مختصر میٹنگ بھی ہوئی جس میں پانی کے معاملے پر پیش رفت کے لیئے معاملات طے کئے گئے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ ہم رہیں نہ رہیں لیکن ڈیم ضرور بنے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 17ہزار روپے کامقروض ہے، پاکستان کا نقصان کسی ڈرائیور یا غریب نے نہیں کیا بلکہ اشرافیہ نے کیا ہے۔ مزید برآں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضہ معافی کیس میں 222 افراد کو تین ماہ میں واجب الادا قرض کا 75 فیصد حصہ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قرضہ معافی ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے رانا حیات کے حوالے سے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی ہیں جو انتخاب لڑ رہے ہیں جس پر وکیل صفائی اکرام چوہدری نے جواب میں کہا کہ رانا حیات کا نام 222 افراد کی فہرست میں نہیں ہے۔ وکیل صفائی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان کا نام 222 افراد کی فہرست میں نہیں ہے تو اس معاملے کو بھی ہم دیکھ لیں گے، جب قرض لے کر کھایا گیا اس وقت خیال نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب کے لیے ایک ہی حکم جاری کر یں گے اور جس نے پیسہ کھایا ہے اس کو واپس کرنا پڑے گا جس کے بعد کیس کی سماعت 30 جون تک ملتوی کر دی گئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ہم قرض معافی سے متعلق تمام 222 مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیتے ہیں اور بینکنگ کورٹس اس کیس کا خود جائزہ لیں گی۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قرض معاف کرانے والے افراد 25 فیصد پرنسپل رقم ادا کریں، یہ پیش کش قبول نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا دیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بینکنگ کورٹس کو 6 ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایات دیں گے، اس کے علاوہ 25 فیصد قرض معافی کی رقم کے لیے سپریم کورٹ کا اکاو¿نٹ کھول کر 3 ماہ میں جمع کرانے کا حکم دیں گے۔ اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔ سپریم کورٹ نے نے پنجابی زبان فروغ درخواست نمٹا دی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رزاق اے مرزانے کہا کہ پنجابی زبان کے فروغ کیلئے حکومت پنجاب نے قانون بنا دیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قانون بن گیا ہے تو مقدمہ غیر موثر ہو گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ قانون بننے کے بعد مزید عدالتی کاروائی کی ضرورت نہیں، پنجابی زبان کے فروغ کی درخواست نمٹا دی گئی۔سپریم کورٹ نے بنی گالہ غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس میں ایک ہفتے کے اندر اعتراضات جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بنی گالہ غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن بارے ناہید خان کی درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پرخارج کردی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن سے متعلق ناہید خان کی اپیل پر سماعت کی تو ناہید خان کے وکیل بیرسٹر افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ کیس الیکشن 2013ءکے حوالے سے تھا۔ پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ اب تو الیکشن 2018ءکے لئے انتخابی نشان الاٹ ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کے لئے اب رجسٹریشن لازمی ہے۔ ناہید خان کے وکیل نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے تو عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن ایکٹ 2017ءکے بعد درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ ناہید خان چاہیں تو نئے قانون کے تحت دوبارہ متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پارٹی کے اصل وارث وہ ہی ہیں انہوں نے قربانیاں دی ہیں وہ پارٹی کے بانیوں میں سے ہیں جبکہ وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ وہ تیس سال پارٹی کے ساتھ رہے جیل کاٹی اصل پارٹی وراثت ان کی ہی بنتی ہے۔ سپریم کورٹ میں مستقل پوسٹوں کی جگہ کنٹریکٹ پر بھرتیوں کے خلاف کیس کی سماعت۔ عدالت نے معاملے کو پالیسی میٹر قرار دیا۔ عدالت نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا۔کرامت علی خان بنام فیڈریشن کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تو درخواست گزار کے وکیل رشید اے رضوی عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مستقل پوسٹ پر کنٹریکٹ پر بھرتی ناانصافی ہے جس کا کوئی کیریئر نہیں ہوتا اور تحفظ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ حکومتی پالسیی میٹر ہے بھرتیوں کا معاملہ اس کا ہے عدالت اسے نہیں سن سکتی درخواست ناقابل سماعت ہے۔ بعدازاں درخواست خارج کردی ہے۔ کیس کے بعد وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ انہوں نے میڈیا پروگرام میں لاڑکانہ جج کے حوالے سے پروگرام میں کہا تھا کہ چیف جسٹس کو دورے پر میڈیا کو ساتھ نہیں لیکر جانا چاہئے تھا اس سے ایک جج کی بے عزتی کا پہلو نکلتا ہے۔ شاید اسی بات کرنے پر ان کی درخواست خارج کردی گئی اور انہیں نہیں سنا گیا ہے۔
چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن