یہ نسلوں کی بقاء کی بات ہے
ایک اضطرار اور بے چینی تو بہرحال وطن عزیز میں موجود نظر آ رہی ہے۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تمام ستون ریاستی مضبوطی کا باعث ہیں لیکن عوامی اعتبار کے سوال پر آج ان تینوں ریاستی ستونوں سے مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ افواج پاکستان ہی ایک ایسا ادارہ بچا ہے کہ جسے پاکستانی قوم آج بھی سیلوٹ پیش کرتی ہے۔ افواج پاکستان کے حوالے سے بھی وطن عزیز میں بددلی و مایوسی پھیلانے کا عمل جاری و ساری ہے جس کی وجہ قوم اور فوج کے باہمی اعتبار کے رشتے کو گزند پہنچا کر ملک کو انارکی کی طرف لیجانے کیلئے راستے ہموار کرنا ہے اور یہ سب سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہو رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز میں فوجی حکومتوں کے قیام اور فوج کے برسرِاقتدار رہ کرسیاست کرنے کی تاریخ رقم ہے لیکن سوچنا پڑتا ہے کہ آخر ایسے حالات ہی کس طرح پیدا ہوئے کہ افواج پاکستان بیرکوں سے نکل کر کرسئی اقتدار تک پہنچ گئی۔ انتظامی معاملات کے بگڑنے، ہر مشکل گھڑی کے پیدا ہونے ، طوفانوں، سیلابوں اور آندھیوں کے منہ زور ہو کر تباہی مچانے اور بازاروں ، مزاروں، گرجوں و مسجدوں میں بم دھماکوں کے خلاف ہماری پاک فوج کا سینہ سپر ہو کر جنگ کرنے اور اپنی زندگیوں کے نذرانے پیش کرنے پر پوری قوم پاک آرمی کی احسان مند ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی ہی فوج کے خلاف زہر فشانی سے پرہیز کی اشد ضرورت ہے کہ 2018ء تک پہنچتے پہنچتے ہم ستر سالہ تاریخِ پاکستان میں دشمن کا ٹارگٹ پاک فوج ہی دیکھ رہے ہیں کہ دشمن نہ صرف ہمارے سیاستدانوں، وڈیروں، قومی سماجی لیڈروں کو اپنا دوست بنا رہا ہے بلکہ ملک پاک کے مفاد پرستوں اور غداروں کو خرید خرید کر اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کیلئے ہماری قابلِ فخر فوج کے ملک پاک سے پائوں اکھاڑ دینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس وقت ’’پاکستان‘‘ کو بین الاقوامی سطح پر دشمن ہمسائے نے ہماری افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے کیونکہ وہ اس وقت ریاست پاکستان کے اگر کسی ادارے سے خوفزدہ ہے تو وہ افواج پاکستان کا ادارہ ہے۔ جسے وہ ناقابلِ شکست تسلیم کر چکا ہے کیونکہ افواج پاکستان دنیا کی بہترین جنگجو اور جنگی صلاحیتوں سے مالا مال فوج مانی جا چکی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ افواج پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کا سرچشمہ ’’نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر‘‘ ہے۔ آئیے افواج پاکستان کا نام سُن کر تھر تھر کانپنے والے سابق بھارتی آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ بکرم سنگھ کی اس حالیہ ہرزہ سرائی پر غور فرمائیے…پاکستان میں بہت سے لوگ مل جائیں گے جو کہ پیسے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی سٹریٹجی کی کامیابی کیلئے ان لوگوں کو استعمال کرنا ہو گا۔ پاکستانیوں کا خون بہانا ہو گا، پاکستان میں موجود اینٹی پاکستان تحریکوں کو مالی مدد بہم پہنچانا ہو گی اور پاکستانی مسائل و مشکلات کو ہوا دینا ہو گی…‘‘
قارئین کرام! بھارتی سابق فوجی سربراہ وکرم سنگھ کی گفتگو ہماری قوم کی آنکھیں کھولنے اور بھارت دشمنی کی انتہا کا اندازہ لگانے کا پیمانہ فراہم کرنے کیلئے کافی ہے۔ میں نے اپنے کالم کے شروع میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے محبوب ملک پاکستان کے اندر اضطرار و بے چینی سو فیصد سے بھی زیادہ پیدا ہو چکی ہے۔ مٹھی بھر چند مفاد پرست عناصر نے بھارتی سورموں کے ساتھ ملی بھگت کر کے دشمن کے ان ناپاک عزائم کو جو خاکم بدہن پاکستان کو توڑنے کے حوالے سے ان کے دلوں میں پوشیدہ تھے کو سچ کر دکھانے کے راستے دے دئیے ہیں۔ وکرم سنگھ کے بیان سے ثابت ہو گیا کہ بلوچستان میں لبریشن موومنٹس ، سندھ کی علیحدگی پسند تحریکوں اور دیگر فتنوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ افواج پاکستان سے گزشتہ جنگوں میں شکست فاش کھانے والوں کواب حوصلہ نہیں کہ وہ ہمارے جانباز فوجی بھائیوں اورجگر گوشوں کا سامنا کر سکیں؟ چنانچہ دشمن نے ہماری ہی قوم کے میر جعفروں و میر صادقوں کو ہتھیار بنا لیا۔ اور جنہیں صادق و امین بنا کر قوم کی مسیحائی کرنا تھی انہیں غدار ، چور اور حرام خور بنادیا۔ کیا یہ قوم نہیں سمجھ سکتی کہ کشن گنگا کے کیس کے ساتھ کیا اور کیوں ہوا؟ کیا یہ قوم نہیں سمجھتی کہ کالا باغ ڈیم کو ڈھٹائی میں کیسے اور کیوں ڈالا گیا؟ کیااس قوم کو اتنی بھی سمجھ نہیں آ سکتی کہ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال دینے کے پیچھے کونسے ہاتھ ہیں۔ سرزمین پاک پرکون بم دھماکے کرا رہا ہے؟ ہم کیوں لاچار ہیں، ہم کیوں کمزوری دکھا رہے ہیں؟ فرقہ وارانہ خون ریزی اور صوبائی تعصب کی ہوائیں کس سمت اور کس طرح سے ہوائوں سے آندھیاں بن کر چل پڑی ہیں۔ یہ قوم ، قوم پاکستان ہے جس کے ساتھ غداری و دھوکہ دہی نہیں چلے گی…دشمن سُن لے کہ سرزمین پاک پر مٹھی بھر مفاد پرستوں کی موجودگی دیکھ کر حوصلہ نہ پکڑے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ایسے اپنے عہد ہ مال و آسائشیوں کی زندگی ترک کر کے وطن کی خدمت کیلئے وطن عزیز پر قربان ہونے کیلئے بے غرض بیشمار محب وطن راہنما و فرزند بیٹھے ہیں۔ ابھی بھی شہید وطن بنانے کے عزم کے ساتھ بیٹوں کو جنم دینے والی مائوں کا دھرتی ماں پر وجودکم نہیں ہوا…حالات اگر اس نہج پر پہنچ ہی گئے ہیں کہ ملک کے اندر احتساب کا عمل شروع ہو جائے تو چیف جسٹس آف پاکستان سے پوری قوم کی درخواست ہے کہ عالیجاہ…وطن عزیز کی عزت، ترقی استحکام اور قومی یکجہتی سے کھیلنے والوں کا ٹھیک ٹھیک حساب کیجئے؟؟ میرا وطن میرے ہی ہموطن بیوپاریوں کے ہاتھوں میں کیوں رہے؟ فاضل عدالتیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے راستے مخدوش کرنے والے، کشمیر ایشو کو سردخانے میں ڈالنے والے، دہشت گردوں کو سہولت دینے والے، فرقہ پرستی و صوبائی تعصب کوہوا دینے والے غداروں کا ٹھیک ٹھیک حساب کریں کہ ہم نے اپنی نسلوں کو بچانا ہے۔