بھارت میں کوئی ’’سیتا‘‘ محفوظ نہیں
بھارت میں اخلاقی گراوٹ ہمالہ کو چُھو رہی ہے مسلمان اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں خود ہندو لڑکیوں اور عورتوں کی عزت محفوظ نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ رام کے ماننے والوں کی اس دھرتی میں ہر عورت’’سیتا‘‘ اور ہر انتہا پسند اور بدقماش مرد راون ہے تو غلط نہ ہو گا۔ حکومتی سطح پر بالخصوص بی جے پی حکومت میں کوئی ’’ہنُومان‘‘ پیدا نہیں ہوا جو ’’سیتا‘‘ کو ستم گری اور عدم تحفظ کے چُنگل سے نجات دلا سکے۔ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو جو بھارت کا حکومتی ادارہ ہے اس کے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار بھارت کے اس مکروہ چہرہ سے نقاب اُلٹ رہے ہیں کہ ملک میں خواتین کے ساتھ ’’چھیڑخانی‘‘ کے واقعات میں 33 فیصد اضافہ ہوا اس گھنائونے جرم میں ملوث ملزمان میں سے 60 فیصد کی عمر 18 سے 30 سال ہے رپورٹ کے مطابق عدم تحفظ کا شکار لڑکیاں اور خواتین پارکوں اور ہلکی روشنی والے علاقوں میں جانے سے گریز کرتی ہیں گھر یا دفتر آنے جانے کے لئے راستے تبدیل کرتی ہیں۔ اس دوران ریپ الارم یا مرچ اسپرے ساتھ رکھتی ہیں۔ ٹولیوں کی صورت یا مردوں کے ساتھ آتی جاتی ہیں جبکہ 23 فیصد خواتین چابی کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں ایکشن ایڈ انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سندیپ چھاچھرا کا کہنا ہے کہ خواتین کی سلامتی کے لئے انہیں ریپ یا جنسی زیادتی سے بچانے کے لئے زیادہ قدم اُٹھانے اور خواتین کے حوالے سے لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے بھارت میں ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف اس بھیانک بلکہ شرمناک جُرم پر قابو پانے کیلئے حکومتی سطح پر کوئی مئوثر قدم نہیں اُٹھایا گیا کیونکہ بی جے پی کے کارکنوں کی جو دراصل غنڈے ہیں اور ان کے سرپرست حکمرانوں کی ساری توجہ عورت سے زیادہ گائو رکھشا پر ہے گزشتہ دنوں خواتین نے گائے کے ماسک چہرہ پر لگا کر اس کے خلاف مظاہرہ کیا، گائے نہیں ہماری عزت بچائو، مظاہرے میں شرکت کرنے والی تمام خواتین ہندو تھیں۔ گزشتہ دنوں ہی ہندو غنڈوں نے نئی دہلی کی سن لائٹ کالونی میں چار خواتین سمیت کشمیریوں کے ایک گروپ کو بلااشتعال تشدد کا نشانہ بنایا ہاکیوں اور ڈنڈوں سے لیس یہ غنڈے اس دوران ’’کشمیری دہشت گردوں کو واپس بھیجو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے کمینگی کا نیا مظاہرہ یہ شروع کیا ہے راہ چلتی خاتون کو روک کر زبردستی اس کی چٹیاں کاٹ دیتے ہیں جو ذہنی اذیت پہنچانے کا گھٹیا حربہ ہے۔ ایکشن ایڈ کی رپورٹ کے مطابق جو لڑکیاں 19 برس سے کم عمر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنیں وہ چالیس فیصد ہیں جبکہ دس برس سے کم عمر کی 6 فیصد بچیوں کو تشدد کا سامنا رہا۔ سات سال قبل خواتین کے ساتھ بُرے سلوک کے حوالے سے ہونے والے سروے میں بھارت کا نمبر ساتواں ہی تھا مگر اب تازہ ترین سروے سے بھارت کا پہلا نمبر ہے۔ دریں اثناء بین الاقوامی ادارے پیور ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق بھارت معاشرتی اعتبار سے سب سے زیادہ مذہبی تعصب والا ملک ہے۔ خود امریکی ادارے کی اس رپورٹ کے باوجود اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے نئی دہلی میں براعظم امریکہ سے بڑا جھوٹ بولا کہ ’’بھارت اور امریکہ دونوں میں مذہبی آزادی پائی جاتی ہے ’’اگر گائے کے نام پر آئے روز مسلمانوں کے سرعام وحشیانہ قتل کا نام ’’مذہبی آزادی‘‘ ہے تو ایسی بیہودہ تشریح امریکی ہی کر سکتے ہیں اگرچہ امریکی بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کیلئے اس پر نوازشات کی بارش کر رہے ہیں لیکن جلد ہی وہ ’’چاند‘‘ چڑھے گا جب چانکیہ کے پیروکاروں کی عیاری و مکاری ان کے چودہ طبق روشن کر دے گی تب پچھتاوے کا شکار امریکی اپنی بیوقوفی پر آنسو بہائیں گے کہ اس سے تو بہتر تھاجاپان اور آسٹریلیا پر اس سلسلے میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کرتے۔ بھارتی حکمرانوںکا رویہ ’’چرسی یار کس کے ،دم لگا اور کھسکے‘‘ والا ہے۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد امریکہ اور بھارت نے مل کر ڈرامہ رچایا امریکہ نے ایران سے تیل کی خریداری کا معاہدہ کرنے پر بھارت سے ناراضگی کے اظہار کے طور پر مذاکرات سے انکار کر دیا اور اس ’’انکار‘‘ کو بہانہ بناکر بھارت ایران سے ہاتھ کر گیا بھگت کیبر نے کہا تھا۔
کھیر پکائی جتن سے اور چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا کھیر تُو بیٹھی ڈھول بجا
ایران جب چاہ بہار بھارتیوں کے حوالے کر رہا تھا اس پر تشویش ظاہر کرنے والے دوستوں سے کہا تھا فکرنہ کرو چانکیہ فلسفے کے پیروکاروں کے ’’ہاتھ‘‘ لگیں گے تو ایرانیوں کو خود سمجھ آ جائے گی ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے ’’پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے ’’جو شخص اس ملک کا وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے دشمنوں نے ایک تنظیم کھڑی کی ہے جو بھارت اور افغانستان کے ایما پر وزیرستان آپریشن اورافغانستان سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت، شمالی وزیرستان اور سرحدی علاقوں سے پاک فوج کے انخلاء اور ڈیورنڈ لائین ختم کرنے کی تحریک چلا رہی ہو اس کی اس حد تک حمایت کہ اس کے خلاف اُمیدوار ہی کھڑے نہ کئے جائیں یا تو حد درجہ ملکی صورتحال سے لاعلمی ہے یا پھر ذاتی سیاسی، مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینا ہے۔ ابھی محض تین چار روز قبل ہی پشتون تحفظ موومنٹ نے سویٹزرلینڈ میں پاکستانی فوج کے خلاف مظاہرہ کیا جس میں شرکاء نے بھارت اور افغانستان کے پرچم اُٹھا رکھے تھے اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ جھنڈے اُٹھانے والے بھارتی اور افغانی باشندے تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کوئی محب وطن بھارت جیسے ازلی دشمن کے جھنڈے کواپنے مظاہرہ میں برداشت کر سکتا ہے اور کوئی پاکستانی پی ٹی ایم کے جلسوں میں ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ جیسے نعرے لگانے والوں کو قبول کر سکتا ہے بھارت کی خفیہ تنظیم را اور افغانستان کی این ڈی اے کیوںاس تنظیم کی فنڈنگ کر رہی ہیں کیونکہ ان کا اصل ٹارگٹ پاک فوج ہے جس نے ان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا کر پاکستان کی سلامتی کو خطرات سے آزاد کیا جو پاکستان کے دشمنوں کی نظروں میں اس لئے کھٹکتی ہے کہ جب تک جذبۂ جہاد اور حُب الوطنی سے سرشار پاکستان کی مسلح ا فواج موجود ہیں پاکستان دشمن عزائم ناکام و نامراد ہی رہیں گے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ پی ٹی ایم اور اس کے منظور پشتین کو فاٹا میں پشتونوں کے ساتھ نام نہاد زیادتی دکھ دے رہی ہے مگر افغانستان میں ہر روز امریکی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پشتونوں کا کبھی درد نہ ہوا پشتونوںکو مارنے والے امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی مُنہ سے نہ نکلا۔ ظاہر ہے جن کے ہاتھوں بک جائیں ان کے خلاف لب کشائی کیسے ممکن ہے۔ عمران خان کو اگر پی ٹی ایم کے ہی کردار کا علم نہیں تھا تو یہ بے شک افسوسناک ہے ا س سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے تحریک انصاف میں ایک بھی ایسا نہیں جو عمران کو بتا سکے کہ کون کیا ہے ایک حفیظ اللہ نیازی تھے وہ تحریک انصاف میں رہتے تو عمران ایسی لاعلمی کا شکار نہ ہوتے کہ وہ یہ جان سکتے کہ پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم کی اصلیت کیا ہے۔