بریانی کی پلیٹ کے عوض ووٹ بیچنے کا حق
ہم نے آج تک اللہ والوں سے یہی سنا تھا۔”میری بکّل دے وچ چور“۔ لیکن بابا فرید کی بستی سے آئے ہوئے سعید آسی نامی درویش نے کچھ اور بات کہی ہے ۔ وہ ”میری“کی بجائے ”تیری“ بکل دے وچ چوربتا رہے ہیں۔ یہ ایک اطلاع بھی ہے اور ان لکھے ہوئے کالموں کے مجموعے کا نام بھی ۔ آخر وہ ہمیں کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ اس کرید میں ان کے کالموں کی کتاب کھولے بیٹھا ہوں۔ میں 26جولائی 2017کے شائع شدہ کالم پر رک گیا ہوں۔ کالم کا عنوان بھی ”نوائے وقت“سے محبت کرنے والوں کو روکنے ٹوکنے والا ہے ۔ عنوان پڑھ لیجئے ۔ پھر ہی بات کچھ آپ کے پلے پڑے گی ۔ ”مجید نظامی کی تیسری برسی اور کیفیت قلبی“۔ امام صحافت مجید نظامی اور ’نوائے وقت‘ سے سعید آسی کاساتھ تین عشروں سے قدرے زیادہ ہے ۔ اس ایک برس پرانے کالم میں ابھی تک شاخ سے تازہ توڑے پھول کی سی تازگی موجود ہے ۔ اس کالم میں ہمارے قومی روگ کا ذکر ہے ۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کی داستان ہے ۔ پیٹ کی بھوک مٹ جاتی ہے ۔ جیب کی حرص کبھی نہیں مٹتی۔مجید نظامی نے سعید آسی کو بتایا تھا ۔ میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہوکر میرے گھر آئے ۔میاں محمد شریف ، کلثوم نوازاورمیاں شہباز شریف ان کے ہمراہ تھے ۔ وہ مجھ سے اچھی حکمرانی کے اسرار و رموز سے آگاہی چاہتے تھے ۔ میری رائے پوچھنے لگے کہ کاروبار مملکت کیسے چلایا جائے ؟ مجید نظامی نے انہیں وہی مشورہ دیا جو چودہ سو برس پہلے صحابہؓ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو دیا تھا۔ اپنی خلافت کے پہلے روز جب حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنی دکان کھولنے لگے تو انہیں بتایا گیا کہ اب وہ یہ کام نہیں کر سکیں گے ۔ خلافت کی ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں۔ پھر ان کیلئے گزارہ الاﺅنس مقرر کر دیا گیا۔ اس طرح یہ حد بھی طے پا گئی کہ خلیفہ وقت اپنی ذات کیلئے کیا اور کتنا خرچ کرنے کے مجاز ہیں؟ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث سمیٹتے ہوئے کسی حکمران کیلئے تجارت کی مناہی کر دی ہے ۔ مجید نظامی نے بھی انہیں کچھ ایسا ہی مشورہ دیا۔ ”آپ جب تک اقتدار میں ہیں ، اپنے کاروبار سے الگ رہیں اور ساری توجہ ملک اور عوام کی خدمت پر مرکوز رکھیں“۔ مجید نظامی کا اس خاندان سے محبت اور اخلاص کا ایک رشتہ تھا۔ جسے محترمہ رمیزہ نظامی بھی پوری وضع داری اور شائستگی سے نبھارہی ہیں۔ سعید آسی لکھتے ہیں کہ مجید نظامی کو یہ قلق رہا کہ ان سے لئے گئے مشورے کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی اور شریف خاندان کا کاروبار روز بہ روز پھیلتا رہا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کو اپنے اور اپنے خاندان کے کاروبار کی وسعت کیلئے بطور سیڑھی استعمال کیاہے۔پھر یہ بھی سچ ہے کہ اب وہ پانامہ کیس کی شکل میں اس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیںاور سپریم کورٹ ان کے خلاف تا عمر نا اہلی کا فیصلہ بھی سنا چکی ہے۔ بدھ وار کو قائد اعظم لائبریری لاہور میں سعید آسی کی اسی کالموں کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی ۔حاضرین کے لحاظ سے تقریب بہت پروقار تھی ۔ میں بھی سعید آسی کے حکم پر وہاںپہنچا ہوا تھا۔ مجید نظامی کے گھر میاں نواز شریف کا اپنے والد ، اہلیہ اور بھائی کے ہمراہ پہلی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھال کر آنے والاواقعہ اس تقریب میں ایک سے زیادہ مقررین نے دہرایا۔تحریک استقلال ایک زمانہ میں پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت تھی ۔ آجکل یہ ایک مزار ہے او روہ بھی نے چراغے نے گلے۔جناب منظور گیلانی اس کے مجاورکی بجائے صدر ہونے کے دعویدار ہیں۔یہ سید زادے جرات و استقلال میں اپنی مثال آپ ہیں۔ آج ہماری سیاست ایسے ”حبیب جالبوں“ سے خالی ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس موقعہ پر میاں محمد شریف نے کہا تھا ”کاروبار کرنے کا مزہ تو اب آئیگا“۔ منظور گیلانی جو ش خطابت سے بپھرے ہوئے تھے ۔ اک زمانہ تک جرنیلوں کا یوں کھلے بندوں ذکر نہیں ہوا کرتا تھا۔اشاروں کنایوں میں ان کی بات کی جاتی ۔ عمران خان کے دھرنے میں ریفری کی انگلی کے ذکر نے یار لوگوں کی زبانیں کھول کررکھ دی ہیں۔ منظور گیلانی نے اپنی تقریر میں کرپٹ بیورو کریٹس کا ذکر کیا۔ پھر وہ کرپٹ صحافیوں کو روندنے لگے ۔ آخر کار وہ ان مقتدر لوگوں کے تذکرے سے بھی باز نہ آئے جن کے ذکرسے محتاط لوگ اب بھی کترا کر گزر جاتے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری تقریر میں کرپٹ سیاستدانوں کا کہیں ذکر نہیں کیا۔وہ جمہوریت سے محبت اور مارشل لاءسے نفرت کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن کا ذکر چھڑے تو انہیں جمہوریت خطرے میں محسوس ہوتی ہوگی ۔ شاید اسی لئے وہ اس سے گریز کرتے رہے ۔ویسے بھی ہماری جمہوریت حساس بہت ہے ۔ مشتاق رئیسانی ، شرجیل میمن ، ڈاکٹر عاصم اور احد چیمہ کے خلاف اربوں روپوں کی کرپشن کے مقدمات میںاگرتھوڑی سی تیزی آجائے تو ”بی جمہوریت“ منہ بنانے لگتی ہے ۔ کسی ملزم کے اس مطالبہ میں بھلا کتنی جان ہوگی ؟”صرف ہمارے ہی خلاف مقدمات کیوں ؟“ اب توپوری ڈھٹائی سے کہاجارہا ہے کہ احتساب نہیں صرف انتخاب ۔ کیا انتخاب میں کامیابی کسی سیاستدان کواحتساب سے Immuneکا حق بخشتی ہے ؟ یہ ہمارا آج کا اہم سوال ہے ۔ اب تو ہماری سیاسی قیادت لطیفہ کے طور پر یہ مطالبہ دہراتی رہتی ہے ۔دیکھئے ! ہماری بد دیانت قوم دیانتدار قیادت کی خواہش رکھتی ہے ۔ نوبت با ایں جا رسید کہ ہمارا صاف پانی کا منصوبہ بھی صاف نہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ حکومت پنجاب سے پوچھتے ہیں کہ ایک سرکاری افسر کو تیس لاکھ روپے ماہوار تنخواہ کیوں ؟ تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔اس سوال کا کوئی معقول جواب ہے بھی نہیں۔ یہ دریادلی کا سلوک صرف سرکاری خزانے کے ساتھ روا ہے ۔ ورنہ ہمارے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب لندن میں ٹیکسی سے اتر کر ٹیکسی ڈرائیور سے ریزگاری واپس لینے کے بعد پوری احتیاط سے گنتے دیکھے گئے ہیں۔ ہمارے نوجوان خوب سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے اچھا پروفیشن سیاست ہے ۔ ان کے سامنے ہر ضلع میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیںکہ سیاست کی آمدن سے ایک ایک ہزار ایکڑ رقبہ بنایا گیا۔بڑی بڑی فیکٹریاں اور بلند و بالا پلازے تعمیر کئے گئے ۔ اسی لئے کوئی نوجوان کسی سیاسی پارٹی میں محض ڈیسک ورکر نہیں بننا چاہتا۔اسے صرف ایم پی اے اور ایم این اے بننے میں دلچسپی ہے ۔ وہ سرکاری ٹھیکوں میں ان کی کمیشن کی شرح سے خوب واقف ہے ۔ عوام بیچاروں سے ان کا آخری حق NOTAبھی چھین لیا گیا ہے۔ یعنی یہ سیاستدان جیسے تیسے ہیں، آپ انہی میں سے کوئی منتخب کرنے کے پابند ہیں۔نوٹا کا مطلب ہے ۔ None of the above۔ یعنی درج بالا فہرست امیدواروں میں سے کوئی بھی نہیں۔ اب عوام جائیں تو بھلا کہاں جائیں۔ ان کے پاس بریانی کی پلیٹ کے عوض ووٹ بیچنے کے سوا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ سیاست کے ” موچی دروازہ“میں سب سے سچی آواز فیصل آباد سے آئی ہے ۔ ”میں نہ ہی حرام کھاتا ہوں اور نہ ہی کرپٹ ہوں۔اسلئے مجھے ووٹ نہ دیں“۔یہ فیصل آباد سے صوبائی حلقہ 111سے آزاد امیدوار محمد عقیل الرحمٰن کا اعلان ہے ۔ وہ ووٹ اسی لئے نہیں مانگ رہا کہ اس کے پاس بریانی کی کوئی پلیٹ نہیں۔