آبادی میں اضافہ بم ‘ کیا ایک گھر میں7 بچے پیدا کرنے کے وسائل ہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کے نام پر پاکستان کو قائم کیا گیا، اس ریاست کو چلنا تو ہے، ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم ہے، آج بھی جو بچہ پیدا ہورہا ہے وہ مقروض ہے، ہم نے اپنے بچوں کو مقروض نہیں بنانا بلکہ انہیں تعلیم دینی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا میرے خیال میں اولاد میں مناسب وقفے کے حوالے سے قرآن میں بھی آیات موجود ہیں، عدالت نے وفاق سمیت تمام صوبوں اور فریقین سے 15 دنوں میں آبادی پر قابو پانے کیلئے پالیسی طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے،کیا ملک اس قابل ہے ایک گھر میں 7بچے پیدا ہوں؟ کیا ملک میں اتنے وسائل ہیں؟ عوامی آگاہی مہم بالکل صفر ہے، لوگ مرغیوں کے ڈربے میں بھی اضافی جگہ بناتے ہیں، چائنہ نے اپنی آبادی کنٹرول کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آبادی کی شرح پر قابو پانے کیلئے اب تک کتنا پیسہ استعمال کیا؟ ایوب خان دور میں بھی آبادی کی شرح میں کنٹرول کیلئے پالیسی تھی۔ سماعت کے دوران نمائندہ پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں 2100 فلاحی مراکز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں 2100 فلاحی مراکز کی کارکردگی کے بارے میں بتائیں، فلاحی مراکز میں چائے کے کپ پر گپ شپ چلتی ہوگی، فلاحی مراکز کے ملازمین ڈیوٹی کے اختتام کیلئے گھڑی کی طرف دیکھتے رہے ہوں گے، آبادی کے حوالے سے معاملہ قومی فریضہ ہے، ڈپٹی سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ راولپنڈی میں 70سے 80فلاحی مراکز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی کنٹرول کے حوالے سے تمام منصوبے کاغذوں کی حد تک ہیں، ابھی اپنے ٹیلی فون بند کریں میں فلاحی مراکز میں خود جاکر وہاں سہولیات دیکھ لیتا ہوں جس پر کمرہ عدالت میں خاموشی ہوگئی ۔ سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ آبادی کی شرح میں کمی سے متعلق صحت مراکز کی مانیٹرنگ کا کوئی بندوبست نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی کنٹرول میں بیٹھے لوگ صرف مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ انڈونیشیا میں مسجدوں میں جاکر آبادی سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی، اس دوران نمائندہ ڈویلپمنٹ سیکٹر پنجاب نے کہا کہ 70اور 80کی دہائی میں شرح آبادی 3.7فیصد تھی، اس وقت ملک میں شرح آبادی 2.4 فیصد ہے، ہم کسی کو بچے پیدا کرنے سے روک نہیں سکتے، بیرون ملک سے بھی امداد نہیں آرہی۔ چیف جسٹس نے کہا پنجاب حکومت بتائے فلاحی مراکز چلانے کیلئے کتنا بجٹ رکھا گیا ہے؟ ڈپٹی سیکرٹری پنجاب نے کہا 1.459 ملین روپے سالانہ ہر سال ملتا ہے، 3.6بلین روپے پی ایس ڈی پی سے آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا جو بچے پیدا کئے جارہے ہیں ان کو پانی اور خوراک نہیں ملے گی، ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کیلئے پانی، خوراک جیسے وسائل نہیں، ہم نے پورے ملک کیلئے یکساں پالیسی بنانی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پالیسی پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے، شرح آبادی پر کنٹرول کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر سیکرٹری صحت کے پی کے نے کہا پاکستان نے ابھی تک آبادی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا فریقین مل بیٹھ کر ایک خاکہ بنائیں اور ہمیں چیمبر یا عدالت میں پیش کریں، سندھ میں 6، 6 انچ کے فاصلے پر بچے پیدا ہورہے ہیں جس پ رنگران وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ 6،6 انچ کے فاصلے پر بچے پیدا ہونے سے ایچ آئی وی طرز کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کہا جا رہا ہے یہ پاگل ہوگیا ہے ہسپتالوں کے دورے کررہا ہے۔ فواد حسن فواد آپ نائب وزیراعظم رہے ہیں آبادی میں اضافے کے معاملے کو کسی نے کیا دیکھا، فواد حسن فواد نے کہا کہ آبادی میں اضافے کے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے فیصلہ سازی کیلئے رکھنا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا ایک امراض قلب کا ہسپتال بن رہا تھا اسے روک دیا گیا کیونکہ کوئی اور بنا رہا تھا، سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے اس منصوبے کو شروع کروایا۔ چیف جسٹس نے کہا یہاں یہ صورتحال ہے۔ نگران وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ جو خواتین کم بچے پیدا کریں گی انہیں موبائل فون دیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مردوں کو بھی Incentive دیں گے؟ آپ موبائل کمپنیوں کے فائدے کی بات کر رہے ہیں، 3 ہزار کے موبائل اور 2ہزار کے سولر پینل پر شاید کوئی اتنا بڑا کام نہ کرے۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے فواد حسن فواد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگلی حکومت بھی پچھلی حکومت والوں کی آگئی تو پھر الحمدللہ بھائی صاحب یہیں ہونگے۔