• news
  • image

پیپلز پارٹی کا دسواں منشور اور عمران خان کی حاضری

ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کیرئیر کا پہلا اور پیپلز پارٹی کا دسواں منشور پیش کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے منشور میں بھوک مٹاو¿ پروگرام، کسان کارڈ متعارف کرانے، ڈیمز بنانے، طلبا یونین بحال، پارلیمان کی بالادستی اور اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آ کر ہم صحت کی سہولتوں کے نظام کو ملک بھر میںپھیلائیں گے اور پہلی مرتبہ فیملی ہیلتھ پروگرام شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ منشور عام طور پر کاغذی کارروائی ہوتے ہیں، ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ جہاں تک بھوک مٹاو¿ پروگرام کا تعلق ہے۔ یہ بھوک عوام کی نہیں مٹائی جاتی بلکہ حکمران اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ہی ”بھوک“ مٹاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل یکم دسمبر 1967ءمیں ہوئی۔ 1970ءمیں پیپلز پارٹی نے اپنا پہلا منشور جاری کیا۔ اس منشور کے اہم نکات یہ تھے۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اس کے علاوہ اہم باتیں یہ تھیں۔ ذرائع پیداوار کو قومیانا۔ زرعی اصلاحات، ٹریڈ یونینوں کو مضبوط کرنا، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ۔ معاشی اصلاحات وغیرہ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے پر زاہد حسین انجم نے اپنی کتاب ”تاریخ پاکستان“ میں لکھا ”پیپلز پارٹی اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہی تھی، اس لیے وہ زوال پذیر ہو گئی۔ پارٹی اپنے منشور کے مطابق سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے نجات حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ پیپلز پارٹی نے بڑے بڑے صنعتی یونٹوں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لے کر ملک کو صنعتی طورپر مفلوج کیا۔ سکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لینے سے تعلیمی معیار گر گیا“ 1988ءکے انتخابات میں قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی۔ صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے تحت پارٹی کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ وہ پاکستان میں پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی تقریر میں کہا ”طلبا اور مزدور یونینوں کو کام کرنے کی آزادی ہوگی۔ خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کر دینے والے قوانین منسوخ کر دئیے جائیں گے۔ بیروزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ سیاسی بنیادوں پر کی گئی سرکاری ملازمین، مزدوروں کی چھانٹی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ صحت کی جدید سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی“
1990ءکے شروع میں پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کے مابین بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ انہی دنوں کراچی کے حالات خراب ہوئے اور مطالبہ کیا جانے لگا کہ پیپلز پارٹی اقتدار سے الگ ہو جائے۔ صدر پاکستان نے آئین پاکستان کی دفعہ 58کی شق (ب) کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑ دی اور کابینہ بھی ختم کر دی۔ اس کے ساتھ ہی صوبائی گورنروں نے صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں۔ صدر نے اسمبلیاں توڑنے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا۔ پیپلز ورکس پروگرام کے فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔ سیاسی بنیادوں پر منظور نظر افراد کو قرضے دلوائے گئے۔ بین الاقوامی سودوں میں بھی کروڑوں کا کمیشن کھایا گیا وغیرہ 1993ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی تیسری بار برسراقتدار آئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر پاکستان کی وزیر اعظم بن گئیں۔ وہ پاکستان کی سولھویں وزیر اعظم تھیں۔ حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے ان باتوں کا اظہار کیا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کی کوشش۔ صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا قیام، عورتوں کے لئے مفت ڈسپنسریوں کا قیام، عورتوں کے لئے مفت قانونی امداد فراہم کرنے کے مراکز کا قیام وغیرہ۔ 5 نومبر 1996ءکو صدر پاکستان فاروق احمد لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا اور ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کردیا۔ صدر نے قومی اسمبلی توڑنے اور حکومت کی برطرفی کے ضمن میں جو الزامات عائد کیے ان میں چند یہ تھے۔ رشوت ستانی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ جن افراد کے خلاف کرپشن کے الزامات میں فوجداری مقدمات درج تھے، انہیں کابینہ میں شامل کیا گیا۔ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ اور برما کیسٹرول کے حصص کابینہ اور صدر مملکت کی اجازت کے بغیر فروخت کر دئیے گئے جس کے ذریعے قومی خزانوں کو اربوں کا نقصان پہنچا۔ بلاول بھٹو زرداری کے منشور میں بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو 1970ءسے کی جا رہی ہیں۔ 48 برسوں بعد بھی عوام کو لالی پاپ دیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ کب ختم ہو گا؟ 25 جولائی کو ووٹ دیتے وقت عوام کو اس پر سوچنا اور غور کرناہوگا۔ اب کچھ ذکر عمران خان کا۔ عمران خان نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ پاکپتن میں برصغیر پاک و ہند کے عظیم صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکرؓ کے مزار پر حاضری دی۔ وہ اور ان کی اہلیہ مزار بابا فریدؒ کی چوکھٹ پر جھکے اور ماتھا ٹیکا۔ حاضری کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ بعض لوگوں نے اس عمل کو مذہبی نقطہ¿ نظر سے تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس تنقید کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ”میں کلمہ گو مسلمان ہوں۔ شرک کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ سجدہ نہیں تھا۔ بابافریدؒ سے عقیدت کا اظہار تھا۔ بابا فریدؒ عظیم انسان تھے۔ لاکھوں لوگ ان کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔ میں نے بابا جی کی تعلیمات اور ان کے کلام کا مطالعہ کیا ہے۔ ان بزرگوں کی وجہ سے اسلام پھیلا۔ میں ان کی عاجزی کا معترف ہوں۔ میری اہلیہ اور میں نے صرف چوکھٹ کو بوسا دیا۔ کسی حد تک عمران خان کا موقف درست ہے۔ ان کی اہلیہ پہلے بابا جی کی چوکھٹ پر جھکی۔ عمران خان نے اپنی اہلیہ کی تقلید کی۔ اگر وہ درگاہ کے اندر سجدہ ریز ہوتے تو یہ شرک ہوتا۔ شرعی لحاظ سے چوکھٹ پر بھی بوسا جائز نہیں۔ عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ بابا جی انسان کو اپنی ذات کی تکمیل کے لیے بنیادی سبق یہ دیتے ہیں کہ عاجزی ہی میں برکت ہے۔ تکبر اور غرور انسان کو ذلت اور تاریکی کی طرف لے جاتا ہے جبکہ عجز و انکسار انسان کی رفعتوں کا ضامن بن جاتا ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد منفی کام نہیں بلکہ مثبت کام ہیں۔ بابا فرید کا شلوک ہے: ....
بار پرائے بینا سائیں مجھے نہ دیہہ
جے توں ایویں رکھسی، جِیو سریووں لیہ
مفہوم یہ ہے کہ اے فرید پرائے در پر بیٹھنا اور خدا کے سوا کسی اور سے کچھ مانگنا، درست نہیں۔ یعنی دوسروں کا محتاج ہونے سے بہتر ہے کہ رب میری جان بدن سے نکال لے۔ یہاں خودداری کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسروںسے کچھ مانگنے اور اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکنے کو موت سے بدتر کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بابا فریدؒ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن