شیخ رشید کی خواہش ، زچہ و بچہ ہسپتال کا قیام ؟؟
شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے رہنماءہونے کے ناطے عوام کیلئے ہی کام کرتے ہیں اسکا ایک ثبوت انہوں نے اپنے حلقے میں ”زچہ بچہ ‘ ‘ ہسپتال کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے احکامات کو جو انکے ہمراہ علاقے کا دورہ کررہے تھے ، بہت دل سے سراہتے ہوئے انہیں طویل عمر کی دعا کی ، حالانکہ اسوقت زچہ و بچہ شیخ رشید کا ہرگز مسئلہ نہیں حالانکہ انکے اتحادی تین شادیا ں کرچکے ہیں مگر شیخ رشیدپر تاحال کوئی اثر نہ ہوا۔ بابا رحمتہ نے کالا باغ ڈیم ، اور دیگر ڈیمز کی تعمیرات کرانے کیلئے ارادہ کیا جسکے لئے انہوںنے عندیہ دیا ہے کہ قرضے معاف کرانے والوں سے پیسہ نکلوائیںگے اور ڈیم بنائینگے ، ایک اچھی سوچ ہے ۔ اللہ کرے ایسا ہو ، چونکہ ہمارے ہاںیہ روائت ہے کہ چاہے سیاست دانوںکا کیا ہوا ایماندرانہ وعدہ یا کسی محکمے کی جانب سے، اسکا وقت آنے سے پہلے ہی حکومت تبدیل ہوجاتی ہے ۔ یا پراجیکٹ کی خواہش رکھنے والا اپنی ملازمت کی معیاد ختم کربیٹھا ہوتا ہے اور لوگ دل میں ملک کی بہتری کی خواہشات لئے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ملک میں بہت ہی زورو شور سے انتخابی موسم ہے ، اور لگتا ہے کچھ نئے انداز میں چونکہ لوگ تماشے دیکھ دیکھ کر عمر بیتا چکے ہیں ۔ اعتماد کا فقدان خطرناک حد تک زور پکڑ چکا ہے جو یہ ان ممالک کے نظام میں زہر قاتل ہے جو جمہوری نظام رائج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ، ہمارے ہا ں تو جمہوریت کا شور و غو غا ہے صرف ، جمہوریت میں تو انتقال اقتدار عوام کی رائے کے مطابق ہوتا ہے ، اس میں ایک جمہوری حکومت دوسری منتخب حکومت کو اقتدار حوالے کرتی ہے اور عوام کی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے ،اس میں کسی ”نگراں حکومت “ کی انتخاب کرانے کی کوئی گنجائش نہیںہوتی ، پڑوس میں اپنے دشمن کے جمہوری نظام سے بھی ہم سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ پھر اس مرتبہ انتخاب سے قبل ہی تحریک انصاف طے کرچکی ہے کہ اسکی حکومت ہوگی ، پنامہ کے230 ملوث افراد میں سے قرعہ فال سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف کے نام نکلا ، اور انہیں گھسیٹ لیا گیا اور ابھی تک گھسیٹے جارہے ہیں ۔ ضیاءالحق کی پی پی پی کے خلاف مہم کو سامنے رکھ کر مگر کسی اور انداز میں مسلم لیگ کو دیوار سے لگانے کی تمام تر کوششیںزور شور سے جاری ہیں ۔ مسلم لیگ کے لیڈران نے اگر چوریاںکی ہیں تو دو ہفتہ صبر کرلیا جائے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائےگا ۔ جب تک تو کم از کم صبر کرلیا جائے تاکہ انتخابات میں اسکا اشارہ نہ ملے کہ ایک جماعت کوعتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ دنیا میں انتخابات پر نظر رکھنے والے ممالک بھی اسی ملک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جہاںانتخابات واقعی شفاف ہوں، انتخاب کے دن پولنگ بوتھ پر پاک افواج نے شفاف انتخابات کرانے اور امن و امان کی ذمہ داری بھی ہے مگر اصل کام تو پہلے شروع ہوچکا ہے ۔ شفافیت کیلئے بقیہ متعلقہ اداروںکو پہلے دن سے توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کیلئے ہزاروںامیدوار تھے جو ایک اچھی بات ہے ، مگر اب ان میں سے اکثر خاص طور پر مسلم لیگ ن سے آزاد انتخاب لڑنے کو ترجیح دے رہی ہے ، یہ آزاد امیدوار لوٹوںکی ایک نئی شکل ہوگی ، کسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ کر فتح حاصل کرکے اگر حکومت بنانے والی جماعت تک رسائی ہو بھی گئی تو حکومت کے مزے اٹھانے کیلئے حکومتی جماعت میںجانے میں قانونی قباحتیں ہوتی ہیں ، دوبارہ انتخاب میں جانا پٹرتا ہے اسکا مطلب ہے ،پھر مقابلہ اور ایک دو کروڑ روپیہ کا خرچہ ( الیکشن کمیشن کی جانب سے چالیس لاکھ اور بیس لاکھ کے اخراجات کی پابندی تو ایک ڈرامہ ہے جس کی خلاف ورزی کو ثابت کرنا آسان نہیں بلکہ نا ممکن ہے ) اسلئے منافق لوگ آزاد امیدوار بن جاتے ہیں تاکہ جو جماعت بھی حکومت بنانے جارہی ہو وہ ’کود‘ کر پہنچ جائیں ، جس جماعت کو حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ نشستیں نہ ہوں وہاں جائیں اورنہ صرف حکومت کے مزے اٹھائیں بلکہ وزراتیں حاصل کرکے انتخابات میں خرچ کی گئی رقم بھی بمعہ اچھے خاصے سود کے ساتھ وصول کر لیں۔ نواز شریف کا الزام ہے کہ ” کوئی “ ایسا کرارہا ہے ، پہلے جماعت تبدیل کرائی ، جو باقی رہ گئے ان میں ایک بڑی تعداد سے ٹکٹ واپس کرادئے ، انکی سوچ بھی شائد صحیح ہو مگر اسوقت اسطرح کے لوگ یہ طے نہیںکر پارہے کہ ”منجھی کتھے ڈھائیں “ اسکی سب سے بڑی وجہ میاںنواز شریف اور مسلم لیگ میں انکے قریبی ساتھیوں کے خلاف واضح طور پر تادیبی کاروائیاں ، نااہلیت کی تلواریں جیسا غیر واضح موسم ہے ،تو یہ بے چارے کروڑوں روپے لگا کر مسلم لیگ ن سے کیوں انتخاب لڑیں ، مسلم لیگ کوئی نظریاتی جماعت تو ہے نہیںجہاں نظریہ پر ڈٹ جائیں ، مجھے یہ بھی احساس ہے کہ اگر میاںنوازشریف اور مریم بی بی نے لندن سے آکر انتخابی مہم میں حصہ لیااور اپنے بیانیہ پر قائم رہیں گے توایسے میں بڑے بھائی اور تمام تر خاندانی احترام کے باوجود میاں شہباز شریف مشکل محسوس کرینگے ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کا جم غفیر میاںنواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں میںہوگا ۔ امیدوارں کی انتخابی مہم میں نوجوان جو ووٹرز بھی نہیں ان کے امیدوارں کے خلاف نعرے بازی اور تشدد کی کوشش قابل افسوس ہے جس پر نگران حکومت کو چاہئے کہ مقامی انتظامیہ کو سخت ہدائت دے کہ یہ سلسلہ سخت سزاوںکے ذریعے روکے ورنہ خدا نا خواستہ انتخابات میں خاص طور پر پنجاب میں جو کچھ ہوگا وہ ملک کیلئے تماشہ ہوگا اور انتخابات کے کھٹائی میں پڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے ۔ انتخابات کے نتائج جوبھی ہوں یہ امر طے ہے کہ شیخ رشید اپنے حلقے سے ہمیشہ کی طرح انتخاب جیت جاینگے ، گو کہ اس موقع پر شیخ رشید کے ہمراہ چیف جسٹس کا انکے علاقے کا دورہ مخالفین کو ششد رکر رہا ہے انتخاب کے بعد انکے علاقے کا ’زچہ و بچہ ‘ ہسپتال شیخ رشید کے ا ستعمال میںبھی ضرور آنا چاہئے ، سیاست میں بیگم کا ہونا ضروری ہے ، ایک جماعت اپنی بیگم کی شہادت کو استعمال کرتی ہے ، دوسری جماعت بیگم کے کہنے پر مزاروںپر منت مانتی ایک جماعت ( اللہ صحت عطا کرے ) اپنی خاتون اول کی تیمار داری کررہی ہے اور مخالفین اسے بھی تماشہ بنارہے ہیں اور ہمارے ہاںفی الحال حکومت کی خواہش رکھنے والی یہی تین جماعتیںہی توہیں۔