• news
  • image

”چورکی تلاش“

عنوان سے دھوکا نہ کھائیں کہ یہ کوئی الیکشن مہم کا حصہ نہیں بلکہ سعید آسی کی کتاب ”تری بکل دے وچ چور“ کی تقریب رونمائی تھی جسے سیاستدانوں نے لامحالہ الیکشن مہم کا حصہ سمجھ لیا ۔ کالم نگار چونکہ سیاسی بھی تھے اور مقررین میں بھی سیاستدان تھے لہٰذا تقریب کا مزاج سیاسی ہوگیا مگر رنگ بدلتا رہا ۔ آغاز عطاالحق قاسمی کی طنزو مزاح پر مبنی تحریر سے ہوا۔ عطا سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر یہ وہ بھی ضرور تسلیم کرے گا کہ اللہ نے عطا کی طبیعت میں جو طنز و مزاح کا پہلو رکھا ہے اور پھر اس سلیقے میں اپنی بات کہنے کا ہنر عطا کیا ہے وہ بس اللہ ہی کی دین ہے جس کا مضمون میں بھرپور مظاہرہ موجود تھا۔ اس کے بعد تو ہر مقرر اپنا سیاسی ایجنڈہ پیش کرتا رہا اور آغاز و انجام پر سعید آسی کے کالموں کا ذکر بھی ضرور آتا چنانچہ رﺅف طاہر ، منظور گیلانی ، عطا الرحمن ، مجیب الرحمن شامی، غنہزہ احسان نے اپنا اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا اور حاضرین میں ولولہ پیدا کیا۔ ولولہ پیدا کرنے میں روف طاہر ، عطاالرحمن ، اور منظور گیلانی زیادہ کامیاب رہے مگر مجیب الرحمن شامی اور عنہزہ احسان نے بھی اپنے دل کی بات کہی۔ اس کے بعد منظور وٹو تشریف لائے وہ اپنی الیکشن کمپین سے سیدھا تقریب میں آئے تھے چنانچہ ان کی تقریر ان کی سیاسی کمپین کا ہی حصہ تھی انہوں نے بطور وزیراعلیٰ اپنے دور کے ”سنہری اقدامات “ سے حاضرین کو آگاہ کیا اور اپنا آئندہ سیاسی منشور بھی پیش کیا اور ساتھ ہی انہوں نے اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے کتاب نہیں پڑھی اور وہ سعید آسی سے ذاتی تعلق کے باعث تقریب میں حاضر ہوئے ہیں آخر میں صدر محفل خورشید محمود قصوری نے خطاب کیا۔ خورشید محمود قصوری نے خود کو سیاست سے الگ تھلگ رکھا اور اپنے وزارت خارجہ کے دور سے شروع ہونے والے تشخص کے حوالے سے اہم عالمی سیاسی گفتگو کی۔ انہوں نے پاک بھارت تعلقات پر شائع ہونے والی کتابوں کے اقتباسات سے اپنا تھیس بلڈ کرتے ہوئے وثوق سے کہا کہ اب مستقبل میں پاک بھارت جنگ کا کوئی امکان نہیں اور بات چیت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ تقریب اس حوالے سے اہم تھی کہ مختلف الخیال لوگوں نے ایک پلیٹ فارم پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کسی موقع پر کوئی بدمزگی پید نہ ہوئی اس کا سہرا سعید آسی کی معتدل طبیعت کے سر ہے۔ حاضرین بھی کافی با شعور تھے چنانچہ انہوں نے ہر قسم کی گفتگو کو تحمل سے سنا۔اسی طرح کی ایک تقریب ماضی قریب میں ہوئی جو چوہدری شجاعت حسین کی کتاب ”سچ تو یہ ہے “ کی تقریب رونمائی تھی ان دونوں تقاریب کا خاصہ یہی تھا کہ ابھی لوگ مل بیٹھ کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ اور اگر اس رویے کو فروغ دیا جائے تو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا۔ اور یہی اصل راستہ ہے ورنہ مسائل کے حل کی بات نہیں کی جا سکتی۔ دانشوروں نے تو راستہ دکھانا ہے وہ سعید آسی جیسے سوچ اور درد رکھنے والے لوگوں نے لکھ کر بھی بنا دیا اور تقریب کے آغاز پر سعید آسی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ ”آئین پاکستان“پر کوئی کمپورومائز کے قائل نہیں“۔
ایک اور تقریب کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے وہ محکمہ لوکل فنڈ کا صوبائی سیمینار تھا جس کا اختتام ایک خوبصورت شعری نشست پر ہوا۔ اس کا سہرا بجا طور پر عامر مفتی کے سر ہے کہ جو اس محکمے کے انچارج بن کر لاہور آئے ہیں ۔
عامر مفتی کا بیک گراﺅنڈ مکمل طور پر ادبی ہے ۔ وہ ڈاکٹر شاہین مفتی اور منظر مفتی جیسے ادبی لوگوں کے گھرانے کے آدمی ہیں اور اس حوالے سے بھی قابل تحسین ہیں کہ ان کے اندر بھی ایک شاعر اور ادیب ابھی تک زندہ ہے چنانچہ اعداد و شمار اور ہندسوں والے محکمے میں رہ کر بھی ان کے اندر کا شاعر ادیب جیتا جاگتا رہا ۔ چنانچہ جونہی اس کو موقع ملا س نے اپنے ادبی ہونے کا ثبوت دیا ۔ یہ تقریب الحمراءکے ہال نمبر1میں ہوئی اور ڈاکٹر صغریٰ صدف جو اس تقریب کی میزبان شاعرہ تھیں۔ نے سب سے پہلے اس خوشگوار حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ بڑے عرصے کے بعد کسی مشاعرے میں الحمراءکا سب سے بڑا ہال بھرا ہوا دیکھا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لاہور میں جومشاعروںکی روایت کا سرخیل تھا اب مشاعروں میںلوگ دلچسپی نہیں لیتے مگر ہمارے خیال میں مسئلہ سارا رابطوں کے فقدان کا ہے اگر باذوق اور ادبی سامعین سے رابطہ استوار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اپنے عہد کی نمائندہ آوازوں کو سننے اور ان میں اپنی ہاں ملانے کے لئے تشریف نہ لائیں ۔ بہر حال اس تقریب نے تویہی ثابت کیا ہے کہ ابھی بھی لوگ شعر سننے اور داد دینے کا ہنر بھولے نہیں ۔ چنانچہ نبیل احمد نبیل، ایوب ندیم ، زاہد منیر عامر راقم الحروف ، صغری صدف، نیلما ناہید درانی کے کلام کو سامعین سے بھرے ہال میں نہ صرف سنا گیا بلکہ بے ساختہ داد دے کر حاضرین نے اپنے متحرک اور خوش ذوق ہونے کا ثبوت دیا ۔ سینئر شعراءکے تو اب کلام سے لوگ اتنے مانوس ہوگئے ہیں کہ خود مصرعہ اٹھاتے ہیں چنانچہ بسمل صابری سے ”وہ عکس بن کہ مری چشم تر میں رہتا ہے “ جیسی غزل کی ترنم کے ساتھ سنانے کی بار بار فرمائش کی گئی۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں ترنم کی وہ کیفیت نہیں مگر پھر بھی بسمل صابری نے حاضرین کو مایوس نہ کیا۔ یہی عالم برادرم خالد مسعود کی شاعری کا تھا ۔ جو اپنے مخصوص انداز میں شعر کہتے اور سناتے ہیں وہ طنز ومزاح کے پردے میں بڑی دلسوز باتیں کرتے ہیں اور لوگ جو بظاہر ان کے کلام پر ہنستے ہیں جب اس کو دہراتے ہیں تو اسی کرب و فکر کا شکار ہوتے ہیں جس میں ڈوب کرخالد مسعود نے یہ باتیں کی ہیں ۔ بلاشبہ طنز و مزاح کا یہ انداز انہی کا حصہ ہے۔ طنز و مزاح سے یاد آیا کہ پچھلے ہفتے اس حوالے سے ایک معتبر بلکہ موجودہ دور میں سب سے معتبر نام مشتاق احمد یوسفی دنیا سے چل بسے ، مشاق احمد یوسفی نے بھر پور زندگی گزاری اور ” چراغ تلے “ ”زر گزشت “اور ”آبِ گم “ جیسی نادر کتب دیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی اردو ادب کے سنجیدہ قارئین سے جدائی کا تصور بھی محال ہے، بلاشبہ مشتاق احمد یوسفی نے اپنے عہد کو اپنے مخصوص اسلوب میں محفوظ کیا اور یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ اللہ ان کی اگلی منزل کو آسان کرئے اور ان کی مغفرت کرے۔
ذکر یوسفی سے پہلے شعری نشست کا ذکر چل رہا تھا جس کے صدر اور آخری شاعر امجد اسلام امجد تھے جن کی نظمیں سامعین اور حاضرین کو ازبر تھیں چنانچہ ان سے خوب فرمائشیں ہوئیں۔ شعری نشست کے اختتام پر عامر مفتی نے تقریب کا سارا کریڈٹ سامعین اور شعراءکو دیا اور اپنے دوستوں سے اپنے تعلق کی یادوں کو شیئر کیا۔ اس ہفتے موصول ہونے والی کتاب رخشندہ نوید کا پہلا پنجابی مجموعہ کلام ”حالی آٹا و سمیا نائیں“ ہے۔ رخشندہ نوید اردو کی معتبر شاعرہ ہیں جن کے چھ عدد اردو مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ کلام پھر وصال کیسے ہو سے، ہی توجہ حاصل کر لی تھی اس کے بعد ”خاموشی کو سن رہی تھی“ ”کسی اور سے محبت“ ہم اسے چھو نہیں سکتے اور ”نیناں اتریں پار“ کی صورت میں ہر قدم آگے بڑھایا۔ ان کا حالیہ مجموعہ ان کی مادری زبان یعنی پنجابی میں ہے۔ چنانچہ اس میں مادری زبان کی روانی اور بے ساختگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو میں تو درخشندہ اپنی منزل کی وجہ سے اپنا اسلوب رکھتی ہیں لیکن پنجابی مجموعہ میں ان کا رجحان نظم کی طرف زیادہ ہے۔ چنانچہ ”سانولی“ امریتا پریتم ”انت ہونا توں ٹھار“ اور لمے پینڈے جیسی نظمیں قابل غور ہیں۔ ان کی نظمیں ”سکھ دے حالے“ اور ”بھیڑی بو“ بھی خاصے کی چیزیں ہیں۔ پنجابی مادری زبان رکھنے والے اردو شاعروں کے ئے ان کا یہ مجموعہ ایک تحریک کا سبب ہو گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن