• news

احتجاجی پروگرام نہ کوئی ہدایات، لیگی کارکن گومگو کا شکار، 12 اکتوبر 99 کی یاد تازہ

لاہور (فرخ سعید خواجہ) 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں 19 روز پہلے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی، امیدوار قومی اسمبلی این اے 127 و پی پی 173 مریم نواز شریف اور داماد و مسلم لیگ ن یوتھ ونگ پاکستان کے صدر اور امیدوار این اے 14 مانسہرہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کو سزائیں اور دس سال کیلئے نااہلی کے خلاف ان کی پارٹی کی جانب سے پارٹی کے صوبائی اور ضلعی عہدیداران کو کسی بھی قسم کی ہدایات نہ ملنے سے پارٹی عہدیدار اور کارکن گومگو کی کیفیت کا شکار اور پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ان کی جانب سے کسی قسم کے احتجاجی پروگرام کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ اس صورتحال نے 12 اکتوبر 1999ءکی یاد تازہ کر دی جب ایسے ہی حالات میں مسلم لیگیوں کو سانپ سونگھ گیا تھا تاہم مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کے خلاف قریہ قریہ جانے اور پارٹی امیدواروں سے اپنے انتخابی جلسوں اور کارنر میٹنگز میں اس فیصلے پر احتجاج کرنے کی کال دی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اگرچہ کسی قسم کی احتجاجی تحریک چلانے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن اعلیٰ حکام کی ہدایات پر لاہور کے پولیس سٹیشنوں میں مسلم لیگ ن کے یونین کونسل کی وارڈ کی سطح تک کے عہدیداران کی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں تاکہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر انہیں گرفتار کیا جا سکے۔ مسلم لیگ ن یوں تو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور حال ہی میں مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ہے لیکن اس جماعت کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو کبھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی، پارٹی تنظیم میں مرکز کی سطح پر نواز شریف نے سیکرٹری جنرل مقرر کرنے کی طرف کوئی توجہ دی تھی اور نہ ہی شہباز شریف نے اس عہدے پر کسی شخص کو لانا ضروری سمجھا بلکہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل چودھری احسن اقبال کو قائم مقام سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے صدر تھے میاں نواز شریف کی پارٹی صدارت سے بھی نااہلی کے بعد انہیں مسلم لیگ ن کا مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا اور یوں مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر کا عہدہ خالی ہوگیا۔ جنرل سیکرٹری پنجاب کا عہدہ پہلے ہی سے خالی چلا آ رہا تھا، متعدد دیگر عہدے بھی خالی پڑے ہیں۔ الیکشن 2018ءکے موقع پر مسلم لیگ ن کے ضلبعی عہدیداران کے باہمی اختلافات بھی سامنے آئے۔ شیخوپورہ کے ضلعی صدر عارف خان سندھیلہ بھی پنجاب اسمبلی کی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا الزام ہے کہ قومی اسمبلی کے امیدوار اور پارلیمانی بورڈ کے رکن میاں جاوید لطیف ان کی ٹکٹ کے حصول میں رکاوٹ بن گئے۔ جنوبی پنجاب سے جن خواتین کو ماضی قریب اور اب پارٹی کی ٹکٹیں دی گئیں ان میں کوئی خاتون سرائیکی سپیکنگ نہیں ہے اس تمام صورتحال کا نتیجہ ہے کہ پارٹی کو ایک مرتبہ پھر سبکی کا سامنا ہے۔ یوں تو مسلم لیگ ن ہمیشہ سے نواز شریف کے ووٹروں پر مشتمل جماعت ہے جو کہ عام انتخابات کے موقع پر ان کے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے نکل آتے ہیں لیکن ووٹر کبھی سڑکوں پر آکر مار نہیں کھاتا یہ کام پارٹی کارکن ہی کر سکتے ہیں لیکن جب حکومت میں آکر انہیں نظرانداز کر دیا جائے تو پھر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں زوال کا سبب بھی یہی رویہ بنا ہے۔ 1993ءمیں جب میاں نواز شریف پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے اور 1995ءمیں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نجات شروع کی انہوں نے پہیہ جام ہڑتال کی ایک دن کال دی لیکن پہیہ چلتا رہا، ان کی ہدایات کے باوجود کارکن پہیہ جام نہ کروا سکے، لیکن 1997ءکا الیکشن آیا تو ووٹر نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنی دو تہائی اکثریت دلوائی، نواز شریف کی جلاوطنی کے دور میں الیکشن 2002ءمیں اگرچہ مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں محض پندرہ بیس نشستیں ملیں لیکن ان کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی اب بھی نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اس پر ان کا ووٹر جو کہ پہلے ہی ان کے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کیلئے یکسو ہو چکا تھا اب بھی پورے جوش کے ساتھ ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے نکلے گا اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ووٹ دے گا البتہ میاں شہباز شریف مسلم لیگی کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئے، نواز شریف آئندہ چار پانچ روز میں پاکستان آ گئے ان کا لاہور ائر پوررٹ پر مسلم لیگ ن کے حامیوں نے مثالی استقبال کر دیا تو نواز شریف کی ہوا چل پڑے گی جو مسلم لیگ ن کو پنجاب سے واضح برتری دلا دے گی۔
یاد تازہ

ای پیپر-دی نیشن