انتخابی مہم : مسلم لیگ ن کیلئے نواز شریف کو نمایاں رکھنا ضروری
لاہور (محمد دلاور چودھری) ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے نے اگرچہ مصائب کا شکار مسلم لیگ ن کو بظاہر ایک اور سیاسی دھچکا لگا دیا ہے اور مسلم لیگ ن کے قائد اور انکی صاحبزادی مریم نواز کی جلد وطن واپسی کے امکانات کو کم کر دیا ہے جس سے یقینا مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم متاثر ہو سکتی ہے لیکن تصویر کے دوسرے رُخ کے طور پر ان امکانات کو بھی روشن کر دیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی ملک کے اندر موجود قیادت اگر اپنی انتخابی مہم کو م¶ثر انداز میں آگے بڑھاتی رہی تو ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس وقت تین بڑی سیاسی جماعتوں کی صورتحال یہ ہے کہ زرداری کی پیپلزپارٹی سندھ میں مکمل جبکہ بلوچستان اور کے پی کے میں مخلوط حکومت بنانے جبکہ پنجاب میں بھی کسی قدر حکومتی حصہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ جہاں تک سوال عمران خان کی پی ٹی آئی کا ہے تو انہیں سندھ اور بلوچستان میں اپنے سیاسی قد و کاٹھ کا اندازہ ہے اور اس بات کی آگاہی ہے کہ ان دونوں صوبوں میں ان کیلئے کچھ زیادہ نہیں اس لئے انہوں نے بھی اپنی انتخابی مہم کا زیادہ تر رُخ پنجاب اور کے پی کے کی طرف موڑا ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی صورتحال بھی پی ٹی آئی سے کچھ مختلف نہیں اور وہ بھی زیادہ تر انحصار پنجاب اور کے پی کے پر کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ووٹ بنک کے اعتبار سے مسلم لیگ ن پنجاب کی مضبوط ترین پارٹی ہے لیکن اس میں اور پی ٹی آئی میں فرق یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو اس بار ”اپنوں“ کے تازیانوں کا بہت زیادہ سامنا ہے اور ”غیر“ بھی اسے مشق ستم بنائے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں نواز شریف اور مریم نواز نے متواتر جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے جو مومینٹم بنایا تھا وہ ان کے لندن جانے سے اس طرح برقرار نہیں رہ سکا جو مصائب کا شکار اس پارٹی کیلئے بہت ضروری تھا۔ مسلم لیگ ن کو اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود منفی نواز شریف انتخابی مہم کا نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد اس نقصان کو جلسوں سے ”ہولوگرام“ یا ”ویڈیو لنک“ خطابات کے ذریعے کم کرنے کی کس قدر کوشش کرتے ہیں کیونکہ مشکلات کا شکار مسلم لیگ ن کو ایسی کوئی حکمت عملی ضرور بنانا پڑے گی جس میں انتخابی مہم کے دوران نواز شریف مرکزی حیثیت سے نمایاں ہیں۔
حکمت عملی/مسلم لیگ