بسیار خوری سے مرنے والوں کا بھی نوٹس لیا جائے
مکرمی! کھانا جینے کے لئے ہے نہ کہ جینا کھانے کے لئے۔ زندگی ایک عظیم مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو رزق تمہیں دیا گیا ہے اس میں سے کھاﺅ پیو مگر حد سے نہ بڑھو۔ حدیث میں ہے کہ کھانا تب کھاﺅ جب تمہیں بھوک لگےاور بھوک ابھی باقی ہو تو کھانا چھوڑ دو۔ مگر ہم (پاکستانی عوام) نے تو شائد قسم کھا لی ہے کہ ہر کام قرآن و سنت کے خلاف ہی کرنا ہے۔ کسی شادی ولیمہ پر عوام جس طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں وہ سبھی جانتے ہیں۔ کھانے کے بعد رزق کی صورت حال یہ ہے کہ ایک تہائی پیٹوں میں اور دو تہائی پلیٹوں میں ضائع جاتا ہے۔ رمضان شریف میں ہوٹلوںمیں بوفے افطاریاں زور و شور سے ہوتی ہیں۔ ایک بندہ ایک افطاری میں 1500 سے 2500 روپے تک کا کھانا کھا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں فاقوں سے تو شائد کوئی ہی مرتا ہو مگر کھا کھا کر مرنے والوں کی تعداد اسسے کہیں زیادہ ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر امراض ہماری اسی خوبی کا نتیجہ ہے۔ غذائی قلت کا شکار ہونے والوں کا نوٹس تو کئی دفعہ لیا جا چکا ہے۔ چیف جسٹس اور دیگرحکام سے گزارش ہےکہ وہ بسیار خوری سے مرنے والوں کا بھی نوٹس لیںاور کم از کم ہر قسم کے بوفے پر پابندی لگائی جائے۔ (ڈاکٹر محمد ابراہیم ماموں کانجن تحصیل تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد 041-3431912)