انتخابات فرشتوں کے ہیں‘ مسلم لیگ ن نے تعاون مانگا تو ہماری شرائط پر بات ہو گی : زرداری
لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ 2013ءکے انتخابات آر اوز کے الیکشن تھے اور 2018ءکے انتخابات فرشتوں کے انتخابات ہیں۔ مسلم لیگ (ن)‘ پی ٹی آئی‘ ایم کیو ایم سیاسی جماعتیں نہیں ہیں، یہ تو بنائی گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی سیاسی جماعتیں ہیں۔ سیاستدان ہوں، دیواریں نہیں کھڑی کرسکتا۔ 25جولائی کے بعد مسلم لیگ(ن) نے ہم سے تعاون مانگا اور ہم نے ان سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کی تو ان سے بات کرلیں گے مگر اس کے لئے ہماری شرائط پر بات ہو گی، ہمارے اپنے ٹی او آر ہوںگے۔ ہم تو اپوزیشن میں بھی خوشی سے بیٹھتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے غلط راستے چنے‘ انہوں نے مخالفین کو تقسیم کرنے کی بجائے اکٹھا کر دیا۔ انہوں نے ججوں سے لڑائی شروع کی تو انہوں نے کسی کے تحفظ میں جانا ہی تھا۔ میاں صاحب بھول گئے کہ اس تحفظ سے ان کو نقصان ہوگا۔ ہم نے تو جب بھی ڈکٹیٹر سے جنگ لڑی ادارے کو الگ رکھا۔ ادارے کو کبھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا‘ ہمیشہ فرد سے لڑائی لڑی۔ وہ گزشتہ روز ”نوائے وقت اور دی نیشن“ سے خصوصی ملاقات میں ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری، سید شعیب الدین (نوائے وقت)، مبشر حسن (دی نیشن) کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ عکاسی کے فرائض نیشن کے فوٹو گرافر محسن نے ادا کیے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کسی نے نہیں کی۔ ہم نے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی، انہیں حقوق دیئے۔ ہمارا مقصد پاکستان کو مضبوط کرنا تھا اور پاکستان کی مضبوطی اور سب کو اکٹھا رکھنے کیلئے سب کو برابر برابر مضبوط کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا ہم نے بلوچوں سے معافی تو مانگ لی مگر کچھ جو وہاں موجود اور کچھ جو باہر بیٹھے تھے وہ خرابی کے ذمہ دار‘ ہماری تو خواہش تھی کہ بلوچستان میں مکمل امن ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں بلوچستان کو زیادہ دیا مگر میری سوچ ہے جو ہم نے دیا وہ کم دیا۔ ہم نے جو بے پناہ فنڈز دیئے بعد میں پتہ چلا کہ عوام تک نہیں پہنچے‘ راستے میں خورد برد ہوگئے۔ سڑک بن گئی، سیلاب آگیا بہہ گئی۔ اب ان حالات میں کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کے پی کے کو ان کے مطالبے کے بغیر ان کا نام دیا۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا مطالبہ تھا اور ہے۔ فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام سے بھی خوشی ہے۔ انہوں نے ہزارہ صوبے کے مطالبے پر کہا کہ یہ بہت چھوٹا صوبہ ہو گا۔ سندھ میں بھی الگ صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ صرف پنجاب بڑا صوبہ ہے اس میں سے جنوبی پنجاب کو الگ بنایا جا سکتا ہے اور ایسا مطالبہ بھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بہت چھوٹے صوبے بنانا ممکن نہیں ہے۔ پارلیمنٹ اور دیگر ادارے بنانے کیلئے پیسہ کہاں سے لائیں گے۔ انہوں نے حسین لوائی کی گرفتاری اور اپنا نام ایف آئی آر میں ڈالنے کے بارے میں سوال پر کہا کہ یہ سب کچھ ہمارے لئے نیا نہیں ہے۔ گرفتاریاں، مقدمے نئی بات نہیں، ساری زندگی ان کا سامنا کیا ہے۔ عمران خان کو الیکشن جتوانے کے حوالے سے ”کوششوں“ کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ کوشش نظر بھی آ رہی ہے۔ اب تو نیچے کی سطح پر چھوٹے، چھوٹے لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ لوگ سن اور سمجھ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ”احتساب“ تو سندھ سے شروع ہوا۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے، شرجیل میمن گرفتار ہوئے، میرے دوستوں کو تنگ کیا گیا۔ میرے دوستوں کو تنگ کرنے کے چکر میں یو بی ایل (اومنی) کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور وہاں سے کلاشنکوفیں اور دیگر اسلحہ ڈھونڈ نکالا گیا۔ مگر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اس وقت تو بڑے میاں صاحب اقتدار میں تھے۔ تب انہیں کچھ یاد نہیں آیا۔ اب یاد آیا ہے۔ اس سوال پر کہ آجکل اسٹیبلشمنٹ سے ”قربت“ ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قربت ہوتی تو ایف آئی اے کی کیا مجال کہ حسین لوائی جیسے سینئر بینکر کو یوں گرفتار کرتی۔ اب سمٹ اور سندھ بنک کا انضمام روکنے کی بات کی جا رہی ہے۔ سندھ بنک تو کبھی دیوالیہ نہیں ہوا۔ البتہ پنجاب بنک دو مرتبہ دیوالیہ ہو چکا ہے۔ سندھ بنک کو ترقی سے روکنا پاکستان کو ترقی سے روکنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے منشی کو رینجرز نے اندرون سندھ وہاں سے پکڑاجہاں جانا بھی ان کا اختیار نہیں تھا۔ کالعدم تنظیم کے لوگوں کو تو نہیں پکڑا جاتا میرا منشی پکڑ لیا گیا۔ یہ بھی اشارے کنانے کی بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں شک نہیں جی ڈی اے کو ان کی سپورٹ حاصل ہے۔ پیر صاحب پگاڑا شریف مرحوم کی زندگی میں کچھ روایات تھیں۔ اب تو سب کچھ بے ہنگم ہے۔ بڑے پیر صاحب وضعدار آدمی تھے۔ وہ اتنا استعمال نہیں ہوتے تھے۔ ایک حد تک ہوتا تھا۔ اس سوال پر کہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی وطن واپسی پر ان سے کیا سلوک کیا جائے گا۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ سمجھتا ہوں کہ انہیں گرفتار تو کیاجائے گا مگر انہیں ضمانت مل جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ ان حالات کے ذمہ دار خود میاں نوازشریف ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کر دیا۔ جمہوریت کو مضبوط رکھتے تو ان کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا۔ جمہوریت جلتی ہے، پارلیمنٹ میں جاتے، فیصلے وہاں پر کرتے تو یہ حال نہ ہوتا۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت جیسی بھی تھی جمہوری حکومت تھی۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو مضبوط رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں بطور صدر اختیارات اپنے پاس رکھتا۔ اسمبلی کو منتقل نہ کرتا مگر بھٹو اور بے نظیر کی کرسی پر بیٹھ کر ان کی فلاسفی سے الگ نہیں ہو سکتا۔ سب سے طاقتور سویلین صدر کہا گیا مگر میں اس سے گمراہ نہیں ہوا۔ وہی کیا جو جمہوریت کی بحالی اور ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ضروری تھا لہٰذا پارلیمنٹ کو مکمل بااختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے منشی کو رینجرز نے اندرون سندھ وہاں سے پکڑا جہاں جانا بھی ان کا اختیار نہیں تھا۔ کالعدم تنظیم کے لوگوں کو تو نہیں پکڑا جاتا میرا منشی پکڑ لیا گیا۔ یہ بھی اشارے کنائے کی بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں شک نہیں جی ڈی اے کو ان کی سپورٹ حاصل ہے۔ پیر صاحب پگاڑا شریف مرحوم کی زندگی میں کچھ روایات تھیں۔ اب تو سب کچھ بے ہنگم ہے۔ بڑے پیر صاحب وضعدار آدمی تھے۔ وہ اتنا استعمال نہیں ہوتے تھے۔ ایک حد تک ہوتا تھا۔ اس سوال پر کہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی وطن واپسی پر ان سے کیا سلوک کیا جائے گا۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ سمجھتا ہوں کہ انہیں گرفتار تو کیاجائے گا مگر انہیں ضمانت مل جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ ان حالات کے ذمہ دار خود میاں نوازشریف ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کر دیا۔ جمہوریت کو مضبوط رکھتے تو ان کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا۔ جمہوریت جلتی ہے، پارلیمنٹ میں جاتے، فیصلے وہاں پر کرتے تو یہ حال نہ ہوتا۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت جیسی بھی تھی جمہوری حکومت تھی۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو مضبوط رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں بطور صدر اختیارات اپنے پاس رکھتا۔ اسمبلی کو منتقل نہ کرتا مگر بھٹو اور بے نظیر کی کرسی پر بیٹھ کر ان کی فلاسفی سے الگ نہیں ہو سکتا۔ سب سے طاقتور سویلین صدر کہا گیا مگر میں اس سے گمراہ نہیں ہوا۔ وہی کیا جو جمہوریت کی بحالی اور ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ضروری تھا لہٰذا پارلیمنٹ کو مکمل بااختیار کیا۔آصف علی زرداری نے کہا کہ جب وہ صدر بنے تو بیورو کریٹس کا کہنا تھا کہ ملک بچانا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تمہارا کام نہیں ہے، یہ کام پارلیمنٹ کا ہے لہٰذا جو طاقت پارلیمنٹ کو دی جاسکتی تھی اور میرے پاس تھی وہ میں نے پارلیمنٹ کو دے دی۔ اب پارلیمنٹ نے جمہوریت کو بھی بچانا ہے۔ ملک کو بھی مضبوط اور طاقتور بنانا ہے۔ اب اس میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اپنی سوچ کے مطابق چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف صاحب پر اس وقت مشکل وقت ہے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وہ جب مشکل میں ہوں تو ہم ساتھ دیں اور جب مشکل نکل جائے تو ہمیں ڈسنے لگیں۔ انہوں نے اس موقع پر مینڈک اور بچھو کی مثال بھی دی کہ بچھو نے مینڈک سے کہا کہ یہ ندی پار کرا دو۔ مینڈک نے کہا کہ نہیں تم مجھے ڈس لو گے جس پر بچھو نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ مینڈک مان گیا وہ بچھو کو پیٹھ پر لے کر ندی میں اترا مگر بچھو نے اپنی فطرت کے مطابق مینڈک کو ڈس لیا۔ جب دونوں ڈوبنے لگے تو مینڈک نے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا۔ تو بچھو نے کہا کہ یہ ڈسنا میری خصلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جب ہماری ضرورت تھی تو ہم نے تعاون کیا مگر ہمیں جواب میں تعاون نہیں ملا۔ اصل میں ان کا مائنڈ سیٹ اور رویہ جمہوری نہیں ہے۔ اس سوال پر کہ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ الیکشن جیت گئے تو بھی قومی حکومت بنائیں گے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ تو اب ایسا سوچ رہے ہیں جب مشکل میں گھرے ہیں میں تو اس بارے میں پہلے سے ہی ایسا کہہ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے مشکل حالات میں کوئی ایک پارٹی ملک نہیں سنبھال سکتی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ضرورت قومی اتفاق رائے اور قومی مفاہمت ہونا ضروری ہے۔ 2018ءکے انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ کسی کو واضح مینڈیٹ نہیں مل سکے گا۔ اس لئے مخلوط حکومت بنے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں 10 نشستیں لے لے گی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیوں بتاﺅں اگر بتا دیا تو دشمن سازش اور کوشش مزید بہتر کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دور حکومت میں پٹرول 35 ڈالر بیرل تھا۔ یہ چاہتے تو سستے تیل سے بجلی بناتے اور فیصل آباد کی بند 150 ٹیکسٹائل ملیں چلواتے، ان سے ٹیکس وصول ہوتا۔ ہم نے سی پیک کو ایسے ڈیزائن کیا تھا کہ سرمایہ کاری چین کرے فائدہ ہم اٹھائیں مگر انہوں نے اسے الٹ کردیا۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ سی پیک روٹ پر انڈسٹریل سٹیشن بنائیں تاکہ ہم وہاں صنعتیں لگائیں۔ ان کی کرنسی میں ڈیل کریں مگر انہوں نے گھوڑا گاڑی کے آگے گھوڑا جوتنے کی بجائے پیچھے لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایران سے گیس کامعاہدہ کیا یہ چاہتے تو اس پر عمل کرتے۔ امریکہ نے اس کی مخالفت نہیں کرنا تھی۔ انہوں نے ہمارے معاہدے کو نظرانداز کردیا۔ امریکہ سے کہتے کہ یہ منصوبہ ہمارے لئے ضروری ہے، ہماری معیشت اور ملک ترقی کرے گا۔ دہشت گردوں کا بہتر مقابلہ کریں گے مگر انہوں نے ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کی بجائے قطر سے مہنگی ایل این جی خریدنے کو ترجیح دی۔ حالانکہ یہ گیس ہمارے ملک میں چاروں صوبوں میں وافر موجود ہے۔ مگر اس سے اس لئے فائدہ نہیں اٹھایا گیا کہ قطر سے مہنگی ایل این جی خریدنا مقصود تھا۔ 2018ءکے انتخابات کے حوالے سے ان سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کے انتخابات کو غیرملکی میڈیا اور مبصر مانیٹر کررہے ہوں گے اور اس میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا ساری دنیا کو پتہ چل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم 2005ءمیں پنجاب میں وزارت اعلیٰ حاصل کرسکتے تھے مگر کسی اور کے ساتھ نہیں گئے۔ جمہوریت کیلئے ان کا ساتھ دیا کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی مگر انہوں نے تو غیر قانونی طور پر پورے بکرے پر قبضے کی کوشش کرڈالی۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کی کمزوریوں، پارلیمنٹ سے بے اعتنائی اور دوری نے جمہوریت کو کمزور کیا اور اس کی بے توقیری ہوئی جس کی سزا نہیں بھگتنا پڑرہی ہے۔ اس سوال پر کہ بھٹو نے تو ختم نبوت کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل کردیا تھا مگر نواز شریف کی حکومت میں یہ پینڈورا باکس نئے سرے سے کھول دیا اور ایسا میاں نواز شریف کی غفلت سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کا ملکی سیاست میں حالیہ کردار ملک اور جمہوریت کیلئے خطرناک ہے۔ ہر وہ جماعت جس کی ذہنیت عسکری ہو وہ لبرل ازم پر حاوی ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ خطرناک بات ہوگی۔ ہماری سرحدوں پر پہلے ہی جنگ ہورہی ہے۔ منشیات کی پیداوار ہمسایہ ملک میں بڑھ رہی ہے۔ اس صورتحال نے حالات کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
زرداری