• news

عام انتخابات سے متعلق عالمی سطح پر بھی تجسس‘ نئی حکومت کے بارے میں استفسار

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) عام انتخابات کے انعقاد میں محض اٹھارہ دن باقی رہے گئے ہیں ۔ ایک ایٹمی ریاست ہونے کے ناطے اور پاکستان کی اہم جغرافیائی و تزویراتی اہمیت کے پیش عالمی سطح پر تجسس پایا جاتا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت ملک کی نئی حکمران ہو گی اور ملک کا نیا وزیر اعظم کون ہو گا۔ اس سلسلہ میں تجزیوں اور تبصروں کیلئے پاکستانی سیاسی ماہرین، صحافیوں اور سفارت خانوں کی رپورٹوں پر تکیہ کیا جا رہا ہے۔ نوائے وقت سے بھی زیادہ تر یہ سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ کیا معلق پارلیمنٹ وجود میں آ رہی ہے؟ عام انتخابات کے بعد وسط مدتی انتخابات کا کیا امکان ہے؟عمراں خان وزیر اعظم بن جائیں گے؟وزیر اعظم بننے کے بعد ایسے ہی رہیں گے یا ان کی شخصیت میں تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے؟ دبے لفظوں میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا عمران کو نادیدہ ہاتھوں کی حمایت واقعی حاصل ہے۔ ملکی تاریخ کا تقریبا تمام عرصہ اقتدار فوجی آمریتوں اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں کے حصہ میں آتا رہا تاہم گزشتہ انتخابات میں صوبہ خیبر پی کے میں حکومت سازی کے بعد اس بار عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں موجود ہے اور پورا تاثر مل رہا ہے کہ عمراں خان ملک کے ممکنہ نئے وزیر اعظم ہو سکتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دو دہائیوں کی سیاست کے باوجود اب بھی اہم پالیسی امور کے بارے میں عمراں خان کی سوچ اور تحریک انصاف کے رحجانات کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں اسی لئے پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج کے بارے میں تجسس پایا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اپنے منشور کا اعلان کر چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں شیری رحمٰن اور فرحت اللہ بابر کا رنگ صاف دکھائی دے رہا تھا جس میں عوام کی فلاح و بہبود، رواں ایٹمی پالیسی کے تسلسل کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے، این ایس جی کیلئے پاکستان کے ساتھ غیر امتیازی رویہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ سب ملکوں سے برابری کی سطح پر قومی مفادات میں تعلقات رکھے جائیں گے جب کہ منشور میں انسانی حقوق اور بطور خاص لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے زوردار آواز اٹھائی گئی۔ خوبصورت طباعت کے ساتھ منشور اردو میں شائع کیا گیا جس کی انگریزی کاپیاں بھی دستیاب تھیں۔ مسلم لیگ(ن) کا منشور سرد و گرم چشیدہ مشاہد حسین نے تیار کیا جس کا شہباز شریف نے کچھ روز پہلے لاہور میں اعلان کیا۔ اس منشور میں ملک کی معاشی بحالی، توانائی اور زراعت جیسے شعبوں پر خاص توجہ د گئی اور آئندہ کی معاشی پالیسیوں کیے خدوخال بیان کئے گئے۔ بزبان انگریزی تیار کئے گئے منشور کا مخاطب واضح طور پر ملک کا لکھا پڑھا طبقہ اور دیگر ملک تھے۔ ویسے بھی ان دونوں جماعتوں کی سیاسی و معاشی امور پر سوچ، عالمی و علاقائی سیاست کے رحجانات خوب جانے پہچانے ہیں۔ اگر کوئی ابہام موجود تھا بھی تو منشور کے اعلان نے وہ کمی دور کر دی ۔ تحریک انصاف چونکہ آئندہ حکومت بنانے کی مضبوط امیدوار ہے چنانچہ اسے سرعت سے پالیسی امور خصوصاً، ملکی معیشت کے اصلاح کے تفصیلی پروگرام، پاک چین معاشی راہداری کے بارے میں ترجیحات، بھارت اور افغانستان سمیت پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات، ایران اور سعودی عرب جیسے ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن کے لائحہ عمل، پاکستان کی ایٹمی پالیسی کے خدوخال، داخلی و بیرونی سلامتی پر ترجیحات کا واضح اور سرعت سے اعلان کرنا چاہیے تھا ۔ماضی میں طالبان خان کہلائے جانے والے عمران خان کی مذہبی شدت پسندی کے بارے میں سوچ کو زیادہ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن