پیر‘ 24 شوال المکرم 1439 ھ ‘ 9 جولائی 2018ء
فضل الرحمن اس بار اقتدار سے باہر ہوں گے: عمران خان
کہتے ہیں حکمرانوںکے سینے میں دل نہیں ہوتا ابھی تک عمران خان حکومت میں آئے ہی نہیں مگر دل پہلے سے لوگوں کا توڑنا شروع کر دیا ہے۔ ہماری سیاست کے سدا بہار گلِ سرسبد مولانا فضل الرحمن جو ابھی تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں نے چند روز قبل ایک سادہ سی خواہش کا اظہار کیا تھاکہ اگر تحریک انصاف حکومت میں آتی ہے تو اس سے بھی تعاون ہو سکتا ہے۔ اس پر خان صاحب نے گزشتہ روز کے ایسا روکھا جواب دیا اور کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مگر اس بار وہ اقتدار سے باہر ہوں گے۔ جواب سن کر فضل الرحمن صاحب تو بے اختیار :
خط بھیجا تھا یار کو دلدار سمجھ کر
ظالم نے اس کو رکھ لیا نسوار سمجھ کر
کہہ رہے ہوں گے....خان صاحب کو کم ازکم ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) ق لیگ کے لوٹوں مشرف کے موٹوں کو گلے لگا سکتے ہیں الیکشن میں ٹکٹ دے سکتے ہیں تو جیت کے بعد اگر ضرورت پڑی تو مولانا فضل الرحمن کو شامل بارات کیوں نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی اب تو لوٹوں کی طرف سے اشتہار آنے لگے ہیں کہ ہم نے نام تبدیل کر لیا ہے آئندہ ہمیں لوٹا نہ کہا جائے بلکہ الیکٹ ایبلز کے نام سے لکھا اور پکارا جائے....
٭........٭........٭
پاکستانیوں کو بھارتی ویزے جاری نہ کرنے پر احتجاج‘ آئندہ ایسے ملکوں میں کانفرنسز نہیں ہونگی۔ عالمی ماہرین تعلیم
اگر بھارت کی حکومت پاکستان کے خلاف ایسی عامیانہ حرکتوں سے باز نہیں آتی تو پھر پاکستان کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ ویسا ہی کرارا جواب دے۔ کبھی شیڈول کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزے جاری نہیں کئے جاتے‘ کبھی بھارتی حکومت طے شدہ پروگرام کے باوجودپاکستان میں منعقدہ اجلاسوں میں شرکت سے انکار کر دیتی ہے۔ کبھی تاجر و وکلا‘ فنکاروں اور طالب علموں کو بھارتی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے دعوت کے باوجود بھارتی ویزے جاری نہیں کئے جاتے۔ یہ سب کھیل تماشہ ایک عرصہ سے ہو ر ہا ہے۔ پاکستان اس کے باوجود نہایت حوصلے سے صبر و ضبط کا مظاہرہ کر رہاہے۔ شاید اسے بھارت نے کمزوری سمجھ لیا ہے۔ اگر بھارت یہی گھٹیا حرکات جاری رکھتا ہے تو حکومت پاکستان کو بھی جوابی وار ایسا کرنا چاہئے کہ بھارتی حکمرانوں کی آنکھیں کھل جائیں اور ان کے دانتوں میں بھی پسینہ آئے۔ بھارت محبت کی زبان کبھی نہیں سمجھے گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اب ایسوسی ایشن فور ایشین سٹڈیز اور اشوکا یونیورسٹی کے تعاون سے دہلی میں منعقدہ کانفرنس کے پاکستانی مندوبین کو ویزے نہ جاری کرنے پر عالمی ماہرین تعلیم فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے ممالک کانفرنس نہیں کریں گے جو دوسرے ممالک کو ویزے جاری نہیں کرتے۔ اس کرارے جواب کے بعد اُمید ہے بھارت کو آرام مل گیا ہو گا۔ اب حکومت پاکستان بھی ایسا ہی رویہ اپنائے تو جلد ہی بھارت کی آنکھیں کھل جائیں گی....
٭........٭........٭
حسین لوائی کی گرفتاری اور آصف زرداری کی دبئی روانگی
آج کل ایف آئی اے اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی حسین لوائی میں اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کا میچ شروع ہوا ہے دیکھتے ہیں اس میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ گزشتہ روز حسین لوائی اور شریک ملزم طلحہ کو سٹی کورٹ کراچی میں پیش کیا گیا جہاں ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ 9 ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی 4 ارب ریکور کر لئے ہیں‘ جبکہ حسین لوائی کہہ رہے ہیں کہ میں نے کچھ کیا نہیں مجھ سے کوئی ریکوری نہیں ہوئی۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ 4 ارب کہاں سے آئے کس نے دئیے کس نے وصول کئے یہ معمہ بھی حل کرنا پڑے گا۔ نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد نامعلوم گرفت اب آہستہ آہستہ سابق صدر آصف زرداری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے یکدم پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم میں شریک ہونے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ پنجاب کے دورے سے یہ مہم شروع کرینگے۔ اب انہوں نے شاید حسین لوائی کی گرفتاری کے بعد فیصلہ بدل لیا اور چپکے سے کسی کو کانوں کان خبر دئیے بغیر اچانک دبئی چلے گئے ہیں۔ اب ایسے وقت میں جب الیکشن چند دنوں کی دوری پر ہیں ان کا یہ فیصلہ ناقابل فہم ہے۔ بلاول جی سے اکیلے الیکشن مہم سنبھل نہیں رہی۔ اس موقع پر آصف زرداری صاحب کا باہر جانا ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ خدا کرے وہ باہر کے معاملات سنبھال کر جلدآکر الیکشن مہم سنبھال لیں....
٭........٭........٭
مخالف اُمیدواروں کے پوسٹروں پر نازیبا الفاظ لکھنے اور سیاہی پھیرنے کے واقعات
جیسے جیسے الیکشن مہم میں تیزی آ رہی ہے۔ ووٹروں کے جذبات میں بھی موسم کی شدت کی وجہ سے گرمی آ رہی ہے۔ جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی عام ہے۔ اس کا کوئی زیادہ نوٹس بھی نہیں لیتا۔ کوچہ و بازار میں تھڑوں پر بھی سیاسی بحث و مباحثے تیز و تند جملوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہوٹلوں اور دکانوں پر پہلے ہی سے احتیاطً ”یہاں سیاسی گفتگو منع ہے“ نمایاں طور پر لکھا جا چکا ہے۔ اس کی ابتدا جہاں تک یاد پڑتا ہے ضیا الحق کے دور سے ہوئی جب مارشل لاءدور میں عوام الناس کو سیاست کی بیماری سے یا گندگی سے بچانے کے سیاست پر گفتگو کرنے سے بھی پرہیزکا مشورہ دیا جاتا تھا کہ مبادا پکڑے نہ جائیں اور مفت میں جیل بھگتیں یا کوڑے کھائیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر آج کل جو یہ مخالفین کے پوسٹر پر نازیبا جملے لکھنے ان پر سیاہی پھیرنے کی قبیح رسم چل نکلی ہے یہ تو خاصی عجیب ہے۔ پوسٹر پھاڑنا ‘ تصویر پر جملے لکھنا یا رنگ پھینکنا یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایسا کرنے والے نفسیاتی طور پر اپنے مخالف سے خوفزدہ ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی نظر جب ایسی چیزوں پر پڑتی ہے تو وہ ان حرکتوں سے متنفر ہو جاتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے بارے میں ان کی رائے اچھی نہیں رہتی۔ اس لئے انتخابی مہم میں کم از کم اتنی شائستگی ضرور ہونی چاہئے کہ سیاسی کارکن اسی گندی جملے بازی سے پرہیز کریں۔....
٭........٭........٭