• news
  • image

الیکشن 18: فیصلے و فاصلے اور نواز و زرداری!

میں نہیں مانتا کہ، محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ کہتے رہیں اگر سب کہتے ہیں۔ اب "ماڈرن" پولیٹیکل سائنٹسٹ کہنے لگا ہے کہ، سیاست میں سب جائز ہے۔ جو جائز و ناجائز کے فرق سے ناآشنا ہے وہ محبت، جنگ اور سیاست کی حقیقت ہی سے بے خبر ہے، ایسے کم ظرف کی بات ہی کیا!
جب ضرورت کے وقت احتساب نہ ہو اور احتساب کے وقت عوام کے روئیے میں حساب کتاب نہ ہو، تو رفتہ رفتہ "انتخاب اور احتساب" گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔ اس میں اداروں اور حکمرانوں کا یقینا قصور ہوتا ہے لیکن بری الذمہ عوام بھی نہیں ہوتے! نیا پاکستان ہو یا خوشحال پاکستان، روشن پاکستان ہو یا روٹی کپڑا اور مکان والا پاکستان ایسا پاکستان کوئی لیڈر نہیں بنا سکتا ، اگر کوئی بناسکتا ہے تو وہ صرف قوم ہے، لیکن پاکستانیوں کو عوام سے نکل کر پہلے قوم بننا ہوگا۔ ورنہ جہاں 71 سال بیت گئے وہاں خواب دیکھتے دیکھتے 171 سال بھی بیت سکتے ہیں۔عوام جب قوم بنتے ہیں تو ملک کو اپنا گھر سمجھنے کے بنیادی فارمولے پر عمل سب سے پہلے شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر اور در و دیوار کے ازخود محافظ بنتے ہیں، اگلے مرحلے میں گھر کی تعلیم اور صحت کو دیکھتے ہیں ، کہ جان ہے تو جہان ہے ، تعلیم ہے تو عظیم ہیں، گردونواح کو انصاف دیں گے تو ردعمل کے تناظر میں انصاف خود آپ کی دہلیز چومے گا۔ کر بھلا سو ہوگا بھلا والا معاملہ ہوگا۔ جب ملک کو گھر سمجھا جائے گا پھر آپ کو کسی سے محبت ہو یا عشق ، کوئی برادری ہو یا دوستانہ، کوئی اپنا ہو یا بے گانہ، کسی کو بھی آپ گھر سے روز روز اشیاءاٹھانے یا چرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لاڈلی بیوی ہو یا راج دلارے بچے، بےشک قابل احترام والدین ہی کیوں نہ ہوں ، کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ گھر کے اصول و ضوابط اور تقدس سے کھلواڑ کیا جائے۔ خاندان کا گھر قبلہ و کعبہ ہوا کرتا ہے اور قوم کا قبلہ و کعبہ ملک ہوا کرتا ہے بشرطیکہ کوئی اصلی قبلہ و کعبہ کی حرمت اور فلسفے سے آشنا ہو! اکثر یہ حوالہ دیتا ہوں کہ، تاریخ کبھی گڈبائے نہیں کہتی ، یہ ہمیشہ کہتی ہے کہ See you later (پھر ملیں گے)۔ لیکن ہم بھلا کہاں تاریخ سے ملتے ہیں وہ "پھر ملے" بھی تو ہم آنکھیں چراتے ہیں یا تاریخ کے بس من پسند ابواب پر رک جاتے ہیں وہ سیاق و سباق کو فراموش کرکے۔ ہم تاریخ کو افسانہ بنا دیتے ہیں یا فرمائشی پروگرام ایسے میں گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ چلئے نہ چاہتے ہوئے بھی چند تاریخی پہلو دیکھتے ہیں اور فیصلہ بھی سیاسی کرم فرماو¿ں، یونیورسٹیوں کے محققین، سیاسیات کے طلبہ اور اشرافیہ پر چھوڑتے ہیں جن کا کام تاثرہے کہ:
1۔ ذوالفقار علی بھٹو کے فیصلے اور میاں نواز شریف کے فیصلے کا ٹرائل ، طرزتکلم ، ردعمل، پروٹوکولز، عدالتی روئیے اور جرم کی صحت میں فرق ہے اور نہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ مریم نواز شریف کے سیاسی پلڑوں کو برابر سمجھا جاسکتا ہے نہ ان کا سیاسی قد کاٹھ ایک سا ہے؟
2۔ کیا یہ درست نہیں کہ، اگر میرے جیسا کوئی بندہ اپنی جائداد ظاہر نہ کرے تو وہ ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے ، اور کوئی پبلک آفس ہولڈر یا حکمران ایسا کرے تو وہ کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے؟
3۔ عام فہم لفظوں میں، اگر کوئی اپنی آمدنی سے زائد اثاثے رکھتا ہو اور اسے قوم ، ادارے یا ریاست موقع دیں کہ، آپ جناب آمدن اور اثاثوں میں مطابقت ثابت کردیں اور وہ نہ کر سکے تو ایسے زید یا بکر کے متعلق عام فہم سوچ کیا کہے گی؟
4۔ کوئی صف اول کا سیاسی لیڈر چند دنوں میں قوم سے ٹی وی تقریر پر کچھ کہے، پارلیمنٹ میں وہی بات کچھ اور انداز میں کرے پھر عدالت میں وہی موقف کسی تیسرے انداز میں بیان کرے تو اس معاملے کو قوم، ادارے، پارلیمنٹ اور عدالت کو کس زاویہ نظر سے دیکھنا چاہئے؟
5۔ پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے، ووٹ کو عزت دینے اور جمہوریت کو دوام بخشنے کی باتیں کرنے والے لیڈر کو جب سیاسی پارٹنرز اور ہم نوا یہ کہیں کہ، سیاسی و جمہوری اور بحرانی معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لاکر کسی نتیجہ تک پہنچتے ہیں مگر وہ لیڈر سب کو رد کرکے خود عدالت میں پارلیمانی و جمہوری و بحرانی المیہ لے جائے (جس المیے کو وہ خود سیاسی معاملہ قرار دیتا ہے) تو ایسی قیادت اور اس کے سیاسی فہم کو کیا کہیں گے؟
درج بالا آدھی درجن سوالات کا تعلق تاریخ اور سیاسیات سے زیادہ اور الیکشن 2018 سے شاید بالواسطہ ہے۔ مگر چند سوالات خالصتا الیکشن 2018 کے تناظر میں بھی:
6۔ کیا ن لیگ نے اپنے ہی دئیے ہوئے بیسیوں صفحات پر مشتمل الیکشن 13 کے منشور پر عمل کیا؟ 50 فی صد ہی کیا؟ چلیں صرف تعلیم اور صحت ہی پر عمل کیا؟ کیا جاتے جاتے آخری دوچار دنوں میں پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی تقرری کو پرائیویٹ تعلیمی تاجران سے کروا کر نکیل تعلیم کے نجی پنڈتوں کے مندروں کی بت پرست چوکھٹ کے حوالے نہیں کردی؟ 18 ویں ترمیم کے بعد خواہ مخواہ صحت ایک کم فہم وفاقی وزیر کو دے کر صحت کو ایک سیاسی ایجنڈا نہیں بنادیا گیا تھا؟ پنجاب بھر میں پچھلے پانچ سال یونیورسٹیوں میں 70 فیصد وائس چانسلرز تقرریوں میں اصول، روایات اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے والے کون تھے؟ کیا ان میں پرائیویٹ سیکٹر بابر و ظفر ، ایک سابق پروفیسر وفاقی وزیر، ایک لاہوری سابق صوبائی وزیر اور کچھ لے پالک پبلک سرونٹ کے بجائے پرائیویٹ سرونٹ نما بیوروکریٹس شامل نہیں تھے؟ اقوام کیلئے تعلیم اور صحت سب سے بڑے حساس معاملات ہوتے ہیں جن کا منشور اور عمل میں احساس لازم ہے!
7۔ کیا کراچی کے پانی، ٹریفک اور صفائی کا مسئلہ جیالوں کا مسئلہ نہیں تھا وہ کراچی کو کہ جس کا ترجمہ آدھا سندھ ہے۔ بھلے ہی ایم کیو ایم رکاوٹ ہو پھر دو شاہوں کی حکومتوں کے درمیان کراچی یتیم کیوں رہا؟ کون جواب دہ ہے؟ الیکشن 18 میں اس کا جواب کون اور کیسے لے گا؟
8۔ سنا ہے آنے والی حکومت میں بےشمار وزیر پیپلزپارٹی کے آرہے ہیں ، سنا ہے دما دم مست قلندر ہوگا، سنا ہے عوام کے کام ہوں گے۔ سنا ہے پی پی وزراءکی "برکات و حرکات و سکنات" کے سبب سابق حکومت کے برعکس مرکز میں وزیر تک رسائی عام ہوگی؟ لیکن واضح رہے وہ وزیر اپنے جھنڈے میں سے کالا رنگ نکال کر سرخ اور سبز رنگ میں آرہے ہیں۔ انہوں نے "سہ رنگی" چھوڑ کر "دورنگی" اپنا لی ہے۔۔۔۔ کیا سمجھے آپ لوگ؟
9۔ کیا طوائف الملوکی، قحط الرجال کے سائے سر پر نہیں ہیں اور دیوار پر بیٹھی اداسی بال کھولے رو نہیں رہی کہ، اے انصاف! جمہوریت اور اقتصادیات کے کچھ قاتل کسی امان میں ہیں یا "ایوان" میں ان پیراسائٹس اور پناہ گزینوں پر ہاتھ کب پڑے گا؟
10۔ تم نے سوچا ہے کبھی ممبران اسمبلی اور وزراء کی غربت، بیماری اور جہالت اس قدر برہنہ اور بے بس ہوتی ہے کہ، عوام اپنے پیٹ کاٹ کر ان کے ناتواں بچوں کی تعلیم، ان کے بے بس ہوائی سفروں کی مسافت کے اخراجات اور علاج معالجے کی قابل رشک سہولیات ثواب اور اعزاز سمجھ کر فراہم کرتے ہیں؟ کیا بعد از الیکشن 18 ہم عوام ان غریب، مسکین اور یتیم ممبران اور وزراء کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مدد کو یونہی جاری رکھیں گے، یا عوام سے قوم بننے کی کوشش کریں گے؟ اور بعد از انتخاب یکساں و بے لاگ اور صاف و شفاف احتساب ہوگا؟
جاتے جاتے دو مختصر مگر جامع باتیں: پہلی بات، میاں نواز شریف کیلئے اللہ تعالٰی نے سن 2014 تا 2017 تک (1)بین الاقوامی منڈی کے سستے تیل، (2) سستے کوکنگ آئل،(3) ڈالر کی کم قیمت، (4) سعودیہ کی کثیر رقم کی ایک مدد، (5) سی پیک کا تحفہ وہ نعمتیں رکھیں جو ایک عظیم خوش قسمتی تھی جو کفران نعمت کی بھینٹ چڑھ گئی (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ اور دوسری بڑی دلچسپ بات ، زرداری و نواز میں بڑھے ہوئے فاصلے حالیہ فیصلے کے بعد کم ہوں گے، بےشک نیب زرداری ازم کا بھی گھیرا تنگ کرے۔ عوامی نہ سہی مگر ٹیکنوکریٹ سیاستدان جناب زرداری جب اگلی قومی اسمبلی میں جلوہ افروز ہوں گے، تو منظر کیا ہوگا اور کتنا طویل ہوگا؟ پھر جہاں وہ بھی رونق افروز ہوں گے جو مائنس کالا رنگ کھیل کر پہنچے۔۔۔۔۔ سو، آپ کا کیا بنے گا عمران خان۔۔۔۔ جب ہر دل اور نظر میں ایک سوالیہ نشان ہوگا کہ:
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
٭....٭....٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن